تشریح:
(1) ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہے اور پانچ اوقیہ میں دو سو درہم ہوتے ہیں جو ساڑھے باون تولے کے برابر ہیں۔ اس سے کم مقدار میں زکاۃ نہیں۔ اس طرح ایک وسق ساٹھ صاع کا ہے اور ایک صاع دو کلو اور سو گرام (100 گرام) کے برابر ہے۔ پانچ وسق چھ صد تیس (630) کلو گرام کے برابر ہے۔ اس سے کم مقدار غلے میں کوئی زکاۃ نہیں۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی کنز نہیں ہے، اس کا رکھنا جائز ہے، کیونکہ اس میں زکاۃ نہیں، اور جس مال سے زکاۃ ادا کر دی جائے وہ بھی کنز نہیں جس پر وعید آئی ہے، کیونکہ اس پر مزید کوئی زکاۃ نہیں ہے۔ اس لیے آیت کریمہ سے اس مال کو خاص کرنا ہو گا جس کی زکاۃ ادا کر دی گئی ہو، چنانچہ ابن عبدالبر جمہور کا موقف بیان کرتے ہیں کہ کنز مذموم وہ ہے جس کی زکاۃ نہ ادا کی جائے، حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تو نے اپنے مال کی زکاۃ ادا کر دی تو گویا تو نے مال کے متعلق اپنی ذمہ داری کو ادا کر دیا۔‘‘ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث:618) (3) چند ایک دنیا سے بے رغبت حضرات کے علاوہ کسی نے بھی اس موقف سے اختلاف نہیں کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اگر میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہو اور میں زکاۃ ادا کر کے اسے پاک کروں اور اس میں اللہ کی اطاعت کے کام کروں تو بھی کوئی حرج محسوس نہیں کرتا۔ (سنن ابن ماجة، الزکاة، حدیث:1787)