تشریح:
(1) قیامت کے قریب زمین کی تمام دولت باہر نکل آئے گی اور لوگ بہت کم مقدار میں ہوں گے، ایسے حالات میں کسی کو مال کی ضرورت نہیں ہو گی۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو تفصیل کے ساتھ کتاب الفتن میں بیان کیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ علم اٹھ جائے گا، بکثرت زلزلے آئیں گے، وقت سکڑ جائے گا، فتنوں کا ظہور ہو گا، قتل و غارت عام ہو گی، مال و دولت کی فراوانی ہو گی حتی کہ وہ پانی کی طرح بہنے لگے گی، لوگ بڑے بڑے محلات تعمیر کریں گے، اس قدر پریشانی کا عالم ہو گا کہ آدمی کسی قبر کے پاس سے گزرے گا تو خواہش کرے گا کہ کاش میں اس قبر میں دفن ہوتا۔ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث:7121) ایسے حالات میں انسان کے استغنا کا وہ دور آئے گا جس کا حدیث میں ذکر ہے۔ مقصد یہ ہے کہ صدقہ و خیرات دینے میں لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہیے۔