تشریح:
(1) اس حدیث میں بیان ہوا ہے کہ آدمی اپنا صدقہ لے کر نکلے گا، لیکن اسے کوئی قبول کرنے والا نہیں ملے گا، ایسے حالات قربِ قیامت کے وقت پیش آئیں گے، کیونکہ مذکورہ حدیث کی ایک روایت سے ایسا اشارہ ملتا ہے کہ مال و دولت کی فراوانی حضرت عدی بن حاتم کی زندگی میں نہیں ہوئی، آپ نے فرمایا کہ اگر تمہاری زندگی ہوئی تو تم رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی تصدیق خود ملاحظہ کرو گے۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3595) کیونکہ ان کی وفات حضرت معاویہ ؓ کے دور حکومت میں ہوئی جو کہ فتوحات کا دور تھا۔ محدث ابن التین فرماتے ہیں کہ یہ دور حضرت عیسیٰ ؑ کے نزول کے بعد ہو گا جبکہ روئے زمین پر کوئی کافر نہیں ہو گا اور زمین کی برکات کا یہ عالم ہو گا کہ ایک انار سے پورا کنبہ سیر ہو جائے گا۔ (فتح الباری:356/3) (2) امام بیہقی ؒ نے اسے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور خلافت پر محمول کیا ہے جن کا دور صرف تیس ماہ کا تھا اور اس دور میں لوگ اس قدر مال دار ہو گئے تھے کہ کوئی صدقہ لینے والا نہیں ملتا تھا۔ (دلائل النبوة للبیھقي، با ب ما جاء في إخبارہ صلی اللہ علیه وسلم بالشرالذي یکون بعدالخیر۔۔۔۔۔۔493/6) لیکن قرب قیامت کا قول زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے، کیونکہ حضرت عدی بن حاتم نے فرمایا تھا کہ اگر تمہاری زندگی طویل ہوئی تو تم اسے دیکھ لو گے، اس سے قریب قیامت کے راجح ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔