تشریح:
(1) حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ پچاس عورتیں ایک آدمی کے زیر انتظام زندگی بسر کریں گی۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث:81) (2) مذکورہ حدیث میں چالیس کی تعداد زائد کی نفی نہیں کرتی۔ اس وقت فتنوں کی کثرت سے مرد قتل ہو جائیں گے اور عورتیں زیادہ ہوں گی، پھر اس سے جو نتائج مرتب ہوں گے وہ اہل نظر پر مخفی نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ مذکورہ عورتیں اس شخص کو محارم اور اقارب سے ہوں گی۔ غالبا ایسا حضرت عیسیٰ ؑ کے نزول کے بعد ہو گا جبکہ دجال کو قتل کر دیا جائے گا اور اس وقت آسمان سے برکات نازل ہوں گی۔ بعض لوگوں نے اسے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور پر محمول کیا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، کیونکہ اس دور میں فتنوں کی وجہ سے مردوں کا قتل عام نہیں ہوا کہ پچاس پچاس عورتوں کا ایک ہی منتظم ہو۔ اس کی ایک تیسری توجیہ بھی ہے کہ مذکورہ حدیث میں واؤ جمع کے لیے نہیں کہ کثرت مال اور قتل نساء کا زمانہ ایک ہی ہو، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ دونوں واقعات قیامت سے پہلے پہلے وقوع پذیر ہوں گے اگرچہ ان کا زمانہ مختلف ہو گا۔ اس توجیہ کے پیش نظر کثرت مال حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور میں ہوا اور تلف نساء کا معاملہ حضرت عیسیٰ ؑ کے دور میں ہو گا، اس دور میں اہل حرب مردوں کا قتلِ عام ہو گا اور عورتیں کثرت سے بچ جائیں گی۔ عورتوں کی کثرت شاید اس بنا پر ہو کہ لڑکیوں کی شرح پیدائش لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہو جائے اور اکثر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ نئے جوڑوں کے ہاں پہلے بچیاں پیدا ہوتی ہیں، مدت کے بعد اس چمن میں کوئی دیدہ ور پیدا ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔