تشریح:
1۔ اس دعا کا دوسرا ترجمہ یہ ہے: ’’ اے اللہ میں خبیث جنوں اور جننیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ واضح رہے کہ یہ ا لفاظ کہنے میں کچھ تفصیل ہے: اگر قضائے حاجت کے لیے بیت الخلا جانا ہے تو جانے سے پہلے اس دعا کو پڑھنا چاہیے جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے بعد متابعت میں اس کی صراحت کردی ہے نیز الادب المفرد میں بھی’’جب بیت الخلا میں داخل ہونے کا ارادہ فرماتے‘‘ کی صراحت کے ساتھ مذکور ہے۔ پھر اگر کھلے میدان میں اس کی نوبت آئے تو چونکہ وہاں گندگی نہیں ہوتی اور نہ وہاں شیاطین ہی کا اجتماع ہوتا ہے، اس لیے وہاں بیٹھتے وقت کپڑا اٹھانے سے پہلے پڑھنا چاہیے، البتہ جب انسان قضائے حاجت میں مصروف ہوجائے تو دعائیہ کلمات نہیں پڑھنے چاہییں۔ (فتح الباري: 321/1)
2۔ بیت الخلا میں داخل ہونے سے پہلے اگر دعا پڑھنا بھول جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ دل میں پڑھے؟ زبان سے پڑھ لے یا کچھ نہ پڑھے؟ اس بارے میں اہل علم کی مختلف آراء ہیں: سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ قضائے حاجت کی جگہ ذکر کرنے کے جواز کے قائل ہیں، گویا ان کے نزدیک زبان سے بھی دعا پڑھنی جائز ہو گی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما، عطاء اور مجاہد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک قضائے حاجت کے وقت اور جگہ پر اللہ کا ذکر کرنا ناپسندیدہ ہے۔ امام عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دل میں پڑھے زبان سے ادا نہ کرے۔ (عمدة القاري: 384/2، و مصنف ابن ابی شیبہ: 209/1) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس قول کو جمہور کی طرف منسوب کیا ہے۔ لیکن دلائل سے اس کی تائید نہیں ہوتی اور ہمیں تلاش بسیار کے بعد سلف میں سے اس قول کا قائل عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ معلوم نہیں ہوسکا۔ ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے کہ اگر بھول کی تلافی ممکن ہو تو باہر نکل کر دعا پڑھ کر دوبارہ داخل ہو جائے، ورنہ اسے بھول کی بنا پر معذور سمجھا جائے گا۔ وجہ ترجیح یہ ہے کہ ایسی جگہ اور وقت میں اللہ کا ذکر بہرصورت ناپسندیدہ ضرور ہے۔ اور جہاں تک دل میں استحضار کا تعلق ہے تو ادعیہ ماثورہ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام اذکار اور دعاؤں کا تعلق زبان سے ادا کرنے کا ہے اور کوئی بھی دعا ایسی نہیں جسے محض دل میں استحضار کا حکم ہو۔ ھذا ما عندنا واللہ أعلم بالصواب۔