تشریح:
(1) چونکہ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ کے پاس اپنا ذاتی مال نہیں ہوتا تھا، اس لیے انہیں کہا گیا کہ حضرت زبیر ؓ کے مال سے جو کچھ میسر ہو خرچ کرتی رہا کرو۔ ایسا کرنے سے اللہ کی طرف سے رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ لفظ إيعاء کے معنی روک لینا ہیں۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت مجازی ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ قرآن و حدیث میں جو صفات اللہ کی طرف منسوب ہیں، انہیں حقیقت پر محمول کرنا چاہیے، لیکن جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ وہ بندوں کو ان کے کردار کے مطابق جزا دیتا ہے۔ جیسا کہ مکروفریب اور دھوکے کی نسبت بھی اللہ کی طرف کی گئی ہے، اس لیے ایسے الفاظ کو مجاز پر محمول کرنے کی ضرورت نہیں۔ واللہ أعلم۔