باب:اس بارے میں کہ بیت الخلاء کے قریب پانی رکھنا بہترہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: Providing water at lavatories (for washing the private parts after answering the call of nature))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
146.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، ایک دفعہ نبی ﷺ بیت الخلا گئے تو میں نے آپ کے لیے وضو کا پانی رکھ دیا۔ آپ نے (باہر نکل کر) پوچھا: ’’یہ پانی کس نے رکھا ہے؟‘‘ آپ کو بتایا گیا، تو آپ نے فرمایا: ’’اے اللہ! اسے دین کی سمجھ عطا فرما۔‘‘
تشریح:
عرب کے ہاں استنجا کا عمل عموماً ڈھیلوں سے ہوتا تھا۔ وہاں سے الگ ہوکر پھر پانی استعمال کرتے تھے۔ قضائے حاجت کے وقت پانی ساتھ لے جانا یا پانی اپنے نزدیک رکھ لینا دونوں ہی درست ہیں۔ اس سے پانی پاک ہی رہتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نےکمال ادب کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی رکھ دیا۔ آپ کے سامنے اس کے متعلق تین راستے تھے: (الف)۔ بیت الخلا میں داخل ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی دے آتے۔ (ب)۔ سرے سے پانی ہی نہ دیتے۔ (ج)۔ پانی بیت الخلاء کے قریب رکھ دیتے تاکہ اس کے حصول میں سہولت رہے۔ پہلی دوصورتیں تو مناسب نہ تھیں کیونکہ اگر پانی دینے کے لیے بیت الخلاء میں جاتے تو یہ درست نہیں تھا، بالکل نہ دیتے تو یہ بھی مناسب نہیں تھا کہ آپ کو پانی لینے میں دقت ہوتی، اس لیے سب سےبہتر صورت یہی تھی کہ دروازے پر پانی رکھ دیا جائے چونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ خدمت بجا لا کر عقلمندی کا ثبوت دیا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ویسی ہی دعا فرمائی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے شرف قبولیت سے نوازا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما حبر الامۃ اور ترجمان القرآن کے لقب سے مشہور ہوئے۔ (فتح الباري: 322/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
145
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
143
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
143
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
143
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، ایک دفعہ نبی ﷺ بیت الخلا گئے تو میں نے آپ کے لیے وضو کا پانی رکھ دیا۔ آپ نے (باہر نکل کر) پوچھا: ’’یہ پانی کس نے رکھا ہے؟‘‘ آپ کو بتایا گیا، تو آپ نے فرمایا: ’’اے اللہ! اسے دین کی سمجھ عطا فرما۔‘‘
حدیث حاشیہ:
عرب کے ہاں استنجا کا عمل عموماً ڈھیلوں سے ہوتا تھا۔ وہاں سے الگ ہوکر پھر پانی استعمال کرتے تھے۔ قضائے حاجت کے وقت پانی ساتھ لے جانا یا پانی اپنے نزدیک رکھ لینا دونوں ہی درست ہیں۔ اس سے پانی پاک ہی رہتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نےکمال ادب کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی رکھ دیا۔ آپ کے سامنے اس کے متعلق تین راستے تھے: (الف)۔ بیت الخلا میں داخل ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی دے آتے۔ (ب)۔ سرے سے پانی ہی نہ دیتے۔ (ج)۔ پانی بیت الخلاء کے قریب رکھ دیتے تاکہ اس کے حصول میں سہولت رہے۔ پہلی دوصورتیں تو مناسب نہ تھیں کیونکہ اگر پانی دینے کے لیے بیت الخلاء میں جاتے تو یہ درست نہیں تھا، بالکل نہ دیتے تو یہ بھی مناسب نہیں تھا کہ آپ کو پانی لینے میں دقت ہوتی، اس لیے سب سےبہتر صورت یہی تھی کہ دروازے پر پانی رکھ دیا جائے چونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ خدمت بجا لا کر عقلمندی کا ثبوت دیا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ویسی ہی دعا فرمائی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے شرف قبولیت سے نوازا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما حبر الامۃ اور ترجمان القرآن کے لقب سے مشہور ہوئے۔ (فتح الباري: 322/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہاشم ابن القاسم نے، کہا کہ ان سے ورقاء بن یشکری نے عبیداللہ بن ابی یزید سے نقل کیا، وہ ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ پاخانہ میں تشریف لے گئے۔ میں نے (پاخانے کے قریب) آپ ﷺ کے لیے وضو کا پانی رکھ دیا۔ (باہر نکل کر) آپ ﷺ نے پوچھا یہ کس نے رکھا؟ جب آپ ﷺ کو بتلایا گیا تو آپ نے (میرے لیے دعا کی اور) فرمایا، اے اللہ! اس کو دین کی سمجھ عطا فرمائیو۔
حدیث حاشیہ:
یہ ام المؤمنین حضرت میمونہ بنت حارث حضرت ابن عباس کی خالہ کے گھر کا واقعہ ہے۔ آپ کو خبردینے والی بھی حضرت میمونہ ہی تھیں۔ آپ کی دعا کی برکت سے حضرت ابن عباس فقیہ امت قرار پائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): Once the Prophet (ﷺ) entered a lavatory and I placed water for his ablution. He asked, "Who placed it?" He was informed accordingly and so he said, "O Allah! Make him (Ibn 'Abbas (RA)) a learned scholar in religion (Islam)."