تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ان لوگوں کی تردید کی ہے جو سمندری مال میں پانچواں حصہ نکالنا ضروری قرار دیتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ دریا یا سمندر سے جو چیز ملے اسے اپنی ملکیت میں لینا جائز ہے اور اس میں سے کس قسم کا مقررہ حصہ ادا کرنا ضروری نہیں کیونکہ حدیث خشبه میں خمس نکالنے کا ذکر نہیں اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں مذکور فعل ہی کی تردید فرمائی ہے۔ اس بات کی بھی وضاحت نہیں کہ اس طرح کے مال سے خمس نہ نکالنا بنی اسرائیل کی شریعت میں تھا لیکن میرے صحابہ تمہارے لیے ایسی چیز سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں جب تک اس سے خمس نہ نکال دیا جائے، اس سے معلوم ہوا کہ سمندر سے ملنے والی اشیاء پر خمس وغیرہ نہیں ہے۔ (فتح الباری:3/457) (2) علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ سمندری چیز لینا مباح ہے اور اس سے خمس ادا کرنا ضروری نہیں، عنوان میں ہے: "جو مال سمندر سے برآمد کیا جائے" اور حدیث میں بھی مال کا سمندر سے برآمد ہونا ثابت ہے، حدیث کی عنوان سے مطابقت کے لیے اتنا ہی کافی ہے جیسا کہ امام بخاری کی عادت ہے باقی اشیاء کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ (عمدۃالقاری:6/559) امام اوزاعی رحمہ اللہ کے ہاں کچھ تفصیل ہے، وہ فرماتے ہیں کہ جو چیز ساحل سمندر سے حاصل ہو اس کا خمس ادا کیا جائے اور جو چیز سمندر میں غوطہ لگا کر برآمد کی جائے، اس سے خمس وغیرہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں لیکن جمہور کے نزدیک سمندر کی کسی چیز پر خمس واجب نہیں۔ (فتح الباری:3/457) (3) اس حدیث کو امام بخاری نے کتاب الکفالۃ، حدیث: (2291) میں تفصیل سے روایت کیا ہے وہاں اس کے مزید فوائد ذکر کیے جائیں گے۔ ان شاءاللہ