تشریح:
1۔ پانی سے استنجا کرنے کے متعلق کچھ اختلاف ہوا ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ وہ پانی سے استنجا نہیں کرتے تھے کیونکہ اس سے ہاتھ میں بدبو باقی رہ جاتی ہے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے متلق بھی روایت میں ہے کہ وہ پانی سے استنجا نہیں کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں کرتے تھے۔ بعض حضرات نے پانی سے استنجا اس لیے درست نہیں خیال کیا کہ یہ پانی مشروبات سے ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کر کے اس موقف کی تردید فرمائی ہے۔ (فتح الباري: 329/1)
2۔ بعض لوگوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کیا ہے کہ عنوان کا ثبوت حدیث سے نہیں ملتا کیونکہ حدیث کے جس حصے سے عنوان کا تعلق ہے، وہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان نہیں بلکہ وہ نیچے کے راوی ابوالولید ہشام کی وضاحت ہے۔ لیکن یہ اعتراض بے بنیاد ہے کیونکہ روایات میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے اس بات کی صراحت ہے کہ یہ پانی استنجا کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ (صحیح البخاري، الوضو، حدیث: 152) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے علاوہ بھی روایت کا حوالہ دیا ہے۔ (فتح الباري: 330/1)
3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس عنوان سے یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پانی کی بجائے مٹی کے ڈھیلے بھی بطور استنجا استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن پانی کا استعمال بہتر ہے کیونکہ مٹی کے ڈھیلوں سے عین نجاست تودور ہوجاتی ہے لیکن اس کے اثرات باقی رہتے ہیں جبکہ پانی کے استعمال سے نجاست اوراس کے اثرات و نشانات بھی زائل ہوجاتے ہیں۔ پانی اورڈھیلوں کا جمع کرنا تو بالاتفاق افضل ہے۔واللہ أعلم و علمه أتم۔