باب:اس بارے میں کہ عورتوں کا قضائے حاجت کے لئے باہر نکلنے کا کیا حکم ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The going out of women for answering the call of nature)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
150.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں: آپ نے (اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن سے) فرمایا: ’’(اللہ تعالیٰ کی طرف سے) تمہیں اپنی حاجت کے لیے باہر نکلنے کی اجازت مرحمت فرما دی گئی ہے۔‘‘ہشام کہتے ہیں: اس سے قضائے حاجت کے لیے گھر سے نکلنا مراد ہے۔۔
تشریح:
1۔ عربوں میں یہ رواج تھا کہ وہ قضائے حاجت کے لیے باہرمیدانی علاقوں کا رخ کرتے تھے حتی ٰ کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیهن اجمعین بھی اس مقصد کے لیے باہر جانے کی عادی تھیں۔ عربوں کے ہاں مکانات میں قضائے حاجت کے انتظام کو ناپسند خیال کیاجاتا تھا۔ اس عنوان میں بتایا گیا ہے کہ ازواج مطہرات اگر اپنی ضرورت کے پیش نظر باہرجائیں تو اس کی کیا صورت ہو؟ اگر دن کے وقت جائیں یا بے حجاب نکلیں تو یہ ان کے خلاف شان ہے، چنانچہ اس کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ عورتیں ایک الگ میدان میں رات کے وقت قضائے حاجت کے لیے جاتی تھیں اورانھوں نے اپنی عادت بھی کچھ ایسی بنالی تھی کہ دن کے اوقات میں اس کی ضرورت ہی پیش نہ آتی تھی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اسی صورت کا جواز ثابت فرمایا ہے۔ 2۔ پردے سے متعلق آیات کے نزول میں کچھ تعارض ہے۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک آیت حجاب نازل نہیں ہوئی تھیں جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت حجاب نازل ہوچکی تھی، (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4795) نیز اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول آیت سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد پورا ہو گیا، جبکہ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا منشا پورا نہ ہوسکا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمھیں قضائے حاجت کے لیے باہرجانے کی اجازت ہے۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے منشا کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا واقعہ آیت حجاب کے نزول کا سبب بنا جبکہ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت حجاب کا نزول سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ولیمے کے دن ہوا، چنانچہ صحیح بخاری میں اس کی صراحت موجود ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4791) دراصل حجاب کی دو قسمیں ہیں: حجاب وجوہ:(چہرے کا پردہ) عورت جب غیر محرم کے سامنے آئے تو اپنا چہرہ ڈھانپ کر آئے۔ حجاب اشخاص:(پورے وجود کا پردہ) عورت کی شخصیت ہی نظر نہ آئے،یعنی گھر سے باہر نہ نکلے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہر قسم کے لوگ آتے ہیں، آپ اپنی ازواج مطہرات رضوان اللہ عليهن اجمعین کو پردے کا حکم فرما دیں، تو آیت حجاب نازل ہوئی۔ اس سے ان کی خواہش پوری ہوگئی۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4790) آیت حجاب سورۃ الاحزاب :53 ہے اور یہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ولیمے کے موقع پر نازل ہوئی جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے یہ حجاب وجوہ ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دوسری خواہش تھی کہ حجاب وجوہ کی طرح حجاب اشخاص کا حکم بھی آجائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کوراستے میں ٹوکنا، اسی تناظرمیں تھا لیکن اس سلسلے میں ان کی خواہش پوری نہ ہوسکی بلکہ بذریعہ وحی بتایا گیا کہ عورتوں کو قضائے حاجت کے لیے باہر جانے کی اجازت ہے۔ اس تفصیل سے تضاد کی تمام صورتیں ختم ہوجاتی ہیں، تاہم اس کے بعد گھروں میں قضائے حاجت کے لیے بندوبست کر دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ غیرت تھی بلکہ آپ کے اندر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہیں زیادہ غیرت تھی، لیکن آپ اللہ کی وحی کے بغیر کسی مصلحت پر عمل نہیں فرمانا چاہتے تھے، اس لیے آپ نے ضرورت محسوس کرنے کے باوجود وحی کے آنے تک پردے کی بابت کوئی حکم نہیں دیا۔ (فتح الباري: 1/ 327' 328)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
149
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
147
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
147
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
147
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں: آپ نے (اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن سے) فرمایا: ’’(اللہ تعالیٰ کی طرف سے) تمہیں اپنی حاجت کے لیے باہر نکلنے کی اجازت مرحمت فرما دی گئی ہے۔‘‘ہشام کہتے ہیں: اس سے قضائے حاجت کے لیے گھر سے نکلنا مراد ہے۔۔
حدیث حاشیہ:
1۔ عربوں میں یہ رواج تھا کہ وہ قضائے حاجت کے لیے باہرمیدانی علاقوں کا رخ کرتے تھے حتی ٰ کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیهن اجمعین بھی اس مقصد کے لیے باہر جانے کی عادی تھیں۔ عربوں کے ہاں مکانات میں قضائے حاجت کے انتظام کو ناپسند خیال کیاجاتا تھا۔ اس عنوان میں بتایا گیا ہے کہ ازواج مطہرات اگر اپنی ضرورت کے پیش نظر باہرجائیں تو اس کی کیا صورت ہو؟ اگر دن کے وقت جائیں یا بے حجاب نکلیں تو یہ ان کے خلاف شان ہے، چنانچہ اس کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ عورتیں ایک الگ میدان میں رات کے وقت قضائے حاجت کے لیے جاتی تھیں اورانھوں نے اپنی عادت بھی کچھ ایسی بنالی تھی کہ دن کے اوقات میں اس کی ضرورت ہی پیش نہ آتی تھی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اسی صورت کا جواز ثابت فرمایا ہے۔ 2۔ پردے سے متعلق آیات کے نزول میں کچھ تعارض ہے۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک آیت حجاب نازل نہیں ہوئی تھیں جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت حجاب نازل ہوچکی تھی، (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4795) نیز اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول آیت سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد پورا ہو گیا، جبکہ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا منشا پورا نہ ہوسکا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمھیں قضائے حاجت کے لیے باہرجانے کی اجازت ہے۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے منشا کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا واقعہ آیت حجاب کے نزول کا سبب بنا جبکہ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت حجاب کا نزول سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ولیمے کے دن ہوا، چنانچہ صحیح بخاری میں اس کی صراحت موجود ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4791) دراصل حجاب کی دو قسمیں ہیں: حجاب وجوہ:(چہرے کا پردہ) عورت جب غیر محرم کے سامنے آئے تو اپنا چہرہ ڈھانپ کر آئے۔ حجاب اشخاص:(پورے وجود کا پردہ) عورت کی شخصیت ہی نظر نہ آئے،یعنی گھر سے باہر نہ نکلے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہر قسم کے لوگ آتے ہیں، آپ اپنی ازواج مطہرات رضوان اللہ عليهن اجمعین کو پردے کا حکم فرما دیں، تو آیت حجاب نازل ہوئی۔ اس سے ان کی خواہش پوری ہوگئی۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4790) آیت حجاب سورۃ الاحزاب :53 ہے اور یہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ولیمے کے موقع پر نازل ہوئی جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے یہ حجاب وجوہ ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دوسری خواہش تھی کہ حجاب وجوہ کی طرح حجاب اشخاص کا حکم بھی آجائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کوراستے میں ٹوکنا، اسی تناظرمیں تھا لیکن اس سلسلے میں ان کی خواہش پوری نہ ہوسکی بلکہ بذریعہ وحی بتایا گیا کہ عورتوں کو قضائے حاجت کے لیے باہر جانے کی اجازت ہے۔ اس تفصیل سے تضاد کی تمام صورتیں ختم ہوجاتی ہیں، تاہم اس کے بعد گھروں میں قضائے حاجت کے لیے بندوبست کر دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ غیرت تھی بلکہ آپ کے اندر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہیں زیادہ غیرت تھی، لیکن آپ اللہ کی وحی کے بغیر کسی مصلحت پر عمل نہیں فرمانا چاہتے تھے، اس لیے آپ نے ضرورت محسوس کرنے کے باوجود وحی کے آنے تک پردے کی بابت کوئی حکم نہیں دیا۔ (فتح الباري: 1/ 327' 328)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے زکریا نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے ہشام بن عروہ کے واسطے سے بیان کیا، وہ اپنے باپ سے، وہ عائشہ ؓ سے، وہ رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے (اپنی بیویوں سے) فرمایا کہ تمہیں قضاء حاجت کے لیے باہر نکلنے کی اجازت ہے۔ ہشام کہتے ہیں کہ حاجت سے مراد پاخانے کے لیے (باہر) جانا ہے۔
حدیث حاشیہ:
آیت حجاب کے بعد بھی بعض دفعہ رات کو اندھیرے میں عورتوں کا جنگل میں جانا ثابت ہے۔ (فتح الباری)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) said to his wives, "You are allowed to go out to answer the call of nature.”