تشریح:
(1) اگرچہ اس حدیث میں میدان عرفات سے مزدلفہ اور مزدلفہ سے منیٰ تک کسی کو سواری پر بٹھانے کا ذکر ہے لیکن پورے سفر حج میں ایسا کیا جا سکتا ہے۔ ابن منیر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فضل بن عباس اور اسامہ بن زید ؓ کو اپنے پیچھے باری باری اس لیے بٹھایا تھا تاکہ اس دوران میں جو احکام حج اللہ کی طرف سے نازل ہوں یا رسول اللہ ﷺ انہیں بجا لائیں یہ حضرات اچھی طرح انہیں یاد کر کے دوسروں تک پہنچائیں۔ (فتح الباري:510/3) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تلبیہ دسویں تاریخ کو جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد ختم کر دینا چاہیے، چنانچہ فضل بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں میدان عرفات سے آپ کے ہمراہ تھا۔ آپ تلبیہ کہتے رہے حتی کہ جمرہ عقبہ کو آخری کنکری مارنے کے بعد تلبیہ کہنا بند کر دیا۔ (صحیح ابن خزیمة:282/4) نیز اس حدیث سے سواری پر کسی دوسرے کو آپ پیچھے بٹھانے کا جواز ملتا ہے بشرطیکہ سواری کا جانور اس کا متحمل ہو۔