قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الحَجِّ (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {الحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ، فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الحَجَّ فَلاَ رَفَثَ، وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِي الحَجِّ} [البقرة: 197] وَقَوْلِهِ {يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَهِلَّةِ، قُلْ: هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالحَجِّ} [البقرة: 189])

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ ؓ: " أَشْهُرُ الحَجِّ: شَوَّالٌ، وَذُو القَعْدَةِ، وَعَشْرٌ مِنْ ذِي الحَجَّةِ " وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: " مِنَ السُّنَّةِ: أَنْ لاَ يُحْرِمَ بِالحَجِّ إِلَّا فِي أَشْهُرِ الحَجِّ " وَكَرِهَ عُثْمَانُؓ: «أَنْ يُحْرِمَ مِنْ خُرَاسَانَ، أَوْ كَرْمَانَ»

1560. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ حَدَّثَنَا أَفْلَحُ بْنُ حُمَيْدٍ سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ وَلَيَالِي الْحَجِّ وَحُرُمِ الْحَجِّ فَنَزَلْنَا بِسَرِفَ قَالَتْ فَخَرَجَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ مَنْ لَمْ يَكُنْ مِنْكُمْ مَعَهُ هَدْيٌ فَأَحَبَّ أَنْ يَجْعَلَهَا عُمْرَةً فَلْيَفْعَلْ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ فَلَا قَالَتْ فَالْآخِذُ بِهَا وَالتَّارِكُ لَهَا مِنْ أَصْحَابِهِ قَالَتْ فَأَمَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَكَانُوا أَهْلَ قُوَّةٍ وَكَانَ مَعَهُمْ الْهَدْيُ فَلَمْ يَقْدِرُوا عَلَى الْعُمْرَةِ قَالَتْ فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي فَقَالَ مَا يُبْكِيكِ يَا هَنْتَاهُ قُلْتُ سَمِعْتُ قَوْلَكَ لِأَصْحَابِكَ فَمُنِعْتُ الْعُمْرَةَ قَالَ وَمَا شَأْنُكِ قُلْتُ لَا أُصَلِّي قَالَ فَلَا يَضِيرُكِ إِنَّمَا أَنْتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِ آدَمَ كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْكِ مَا كَتَبَ عَلَيْهِنَّ فَكُونِي فِي حَجَّتِكِ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَرْزُقَكِيهَا قَالَتْ فَخَرَجْنَا فِي حَجَّتِهِ حَتَّى قَدِمْنَا مِنًى فَطَهَرْتُ ثُمَّ خَرَجْتُ مِنْ مِنًى فَأَفَضْتُ بِالْبَيْتِ قَالَتْ ثُمَّ خَرَجَتْ مَعَهُ فِي النَّفْرِ الْآخِرِ حَتَّى نَزَلَ الْمُحَصَّبَ وَنَزَلْنَا مَعَهُ فَدَعَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ اخْرُجْ بِأُخْتِكَ مِنْ الْحَرَمِ فَلْتُهِلَّ بِعُمْرَةٍ ثُمَّ افْرُغَا ثُمَّ ائْتِيَا هَا هُنَا فَإِنِّي أَنْظُرُكُمَا حَتَّى تَأْتِيَانِي قَالَتْ فَخَرَجْنَا حَتَّى إِذَا فَرَغْتُ وَفَرَغْتُ مِنْ الطَّوَافِ ثُمَّ جِئْتُهُ بِسَحَرَ فَقَالَ هَلْ فَرَغْتُمْ فَقُلْتُ نَعَمْ فَآذَنَ بِالرَّحِيلِ فِي أَصْحَابِهِ فَارْتَحَلَ النَّاسُ فَمَرَّ مُتَوَجِّهًا إِلَى الْمَدِينَةِ ضَيْرِ مِنْ ضَارَ يَضِيرُ ضَيْرًا وَيُقَالُ ضَارَ يَضُورُ ضَوْرًا وَضَرَّ يَضُرُّ ضَرًّا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اورحضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ حج کے مہینے شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا سنت یہ ہے کہ حج کا احرام صرف حج کے مہینوں ہی میں باندھیں اور حضرت عثمان ؓنے کہا کہ کوئی خراسان یا کرمان سے احرام باندھ کر چلے تو یہ مکروہ ہے

تشریح : حضرت عبداللہ بن عمر ؓکے اثر کو ابن جریر اور طبری نے وصل کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ حج کا احرام پہلے سے پہلے غرہ شوال سے باندھ سکتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے درست نہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کے اثر کو ابن خزیمہ اور دارقطنی نے وصل کیا ہے۔ حضرت عثمانؓ کے قول کامطلب یہ ہے کہ میقات کے قریب سے احرام باندھنا سنت اور بہتر ہے گو میقات سے پہلے بھی باندھ لینا درست ہے۔ اس کو سعید بن منصور نے وصل کیا اور ابواحمد بن سیار نے تاریخ مرو میں نکالا کہ جب عبداللہ بن عامر نے خراسان فتح کیا تو اس کے شکریہ میں انہوں نے منت مانی کہ میں یہیں سے احرام باندھ کر نکلوں گا۔ حضرت عثمان ؓکے پاس آئے تو انہوں نے ان کو ملامت کی۔ کہتے ہیں اسی سال حضرت عثمان شہید ہوئے۔ حدیث میں آمدہ مقام سرف مکہ سے دس میل کے فاصلہ پر ہے۔ اسے آج کل وادی فاطمہ کہتے ہیں۔

احرام میںکیا حکمت ہے

شاہی درباروں کے آداب میں سے ایک خاص لباس بھی ہے جس کو زیب تن کئے بغیر جانا سوءادبی سمجھا جاتاہے۔ آج اس روشن تہذیب کے زمانے میں بھی ہر حکومت اپنے نشانات مقررہ کئے ہوئے ہے اور درباروں ایونوں کے لئے خاص خاص لباس مقرر کئے ہوئے ہے۔ چنانچہ ان ایوانوں میں شریک ہونے والے ممبروں کو ایک خاص ڈریس تیار کرانا پڑتاہے۔ جس کو زیب تن کر کے وہ شریک اجلاس ہوتے ہیں۔ حج احکم الحاکمین رب العالمین کا سالانہ جشن ہے۔ اسکے دربار کی حاضری ہے پس اس کے لئے تیاری نہ کرنا اور ایسے ہی گشاخانہ چلے آنا کیونکر مناسب ہوسکتاہے۔ اس لئے حکم ہے کہ میقات سے اس دربارکی حضوری کی تیاری شروع کردو اور اپنی وہ حالت بنالو جو پسندیدہ بارگاہ عالی، یعنی عاجزی، مسکینی، ترک زینت، تبتل الی للہ اس لئے احرام کا لباس بھی ایسا ہی سادہ رکھا جو سب سے آسان اور سہل الحصول ہے اور جس میں مساوات اسلام کا بخوبی ظہور ہوتاہے۔ اس میں کفن کی بھی مشابہت ہے جس سے انسان کو یہ بھی یاد آجاتا ہے کہ دنیاسے رخصت ہوتے وقت اس کو اتنا ہی کپڑا نصیب ہوگا۔ نیز اس سے انسان کو اپنی ابتدائی حالت بھی یا دآتی ہے جب کہ وہ ابتدائی دور میں تھا اورحجر و شجر کے لباس سے نکل کر اس نے اپنے لئے کپڑے کا لباس ایجاد کیا تھا۔ احرام کے اس سادہ لباس میں ایک طرف فقیری کی تلقین ہے تو دوسری طرف ایک فقیری فوج میں ڈسپلن بھی قائم کرنا مقصود ہے۔

لبیک پکارنے میں کیاحکمت ہے

لبیک کا نعرہ اللہ کی فوج کا قومی نعرہ ہے جو جشن خداوندی کی شرکت کے لیے اقصائے عالم سے کھنچی چلی آرہی ہے۔ احرام باندھنے سے کھولنے تک ہرحاجی کو نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ بار بار لبیک کا نعرہ پکارنا ضروری ہے۔ جس کے مقدس الفاظ یہ ہوتے ہیں لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک حاضر ہوں۔ الٰہی!فقیرانہ و غلامانہ جذبات میں تیرے جشن کی شرکت کے لئے حاضر ہوں۔ حاضرہوں۔ حاضر ہوں تجھے واحد بے مثال سمجھ کر حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔ میں حاضر ہوں۔ تمام تعریفیں تیرے ہی لئے زیبا ہیں اور سب نعمتیں تیری ہی عطا کی ہوئی ہیں۔ راج پاٹ سب کا مالک حقیقی صرف تو ہی ہے۔ اس میں کوئی تیرا شریک نہیں۔ الفاظ کی گہرائی پر اگر غور کیا جائے تو بے شمار حکمتیں ان میں نظر آئیں گی۔ ان الفاظ میں ایک طرف سچے بادشاہ کی خدائی کا اعتراف ہے تو دوسری طرف اپنی خودی کو بھی ایک درجہ خاص میں رکھ کر اس کے سامنے پیش کیا گیا ہے

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

( 1 )    بار بار لبیک کہنا یہ اقرار کرناہے کہ اے خدا! میں پورے طور پر تسلیم ورضا کا بندہ بن کر تیرے سارے احکام کو ماننے کے لئے تیار ہوکر تیرے دربار میں حاضر ہوتاہوں۔

( 2 ) لاشریک لک میں اللہ کی توحید کا اقرار ہے جو اصل اصول ایمان واسلام ہے اور جو دنیا میں قیام امن کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔دنیا میں جس قدر تباہی وبربادی، فساد، بدامنی پھیلی ہوئی ہے ہے وہ سب ترک توحید کی وجہ سے ہے۔

( 3 ) پھر یہ اعتراف ہے کہ سب نعمتیں تیری ہی دی ہوئی ہیں۔ لینا دینا صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا ہم تیری ہی حمد وثنا کرتے ہیں اور تیری ہی تعریفوں کے گیت گاتے ہیں۔

( 4 )پھر اس بات کا اقرار ہے کہ ملک وحکومت صرف خدا کی ہے۔ حقیقی بادشاہ سچا حاکم اصل مالک وہی ہے۔ ہم سب اس کے عاجز بندے ہیں۔ لہٰذا دنیا میں اسی کا قانون نافذ ہونا چاہئے اور کسی کو اپنی طرف سے نیا قانون بنانے کا اختیار نہیں ہے۔ جو کوئی قانون الٰہی سے ہٹ کر قانون سازی کرے گا وہ اللہ کا حریف ٹھہرے گا۔ دنیاوی حکام صرف اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں۔

اس لئے ان کی اطاعت بندوں پراسی وقت تک فرض ہے جب تک وہ حدود الٰہی قوانین فطرت سے آگے نہ بڑھیں اور خود خدا نہ بن بیٹھیں ا س کے برعکس ان کی اطاعت حرام ہوجاتی ہے۔غور کرو جو شخص بار بار ان سب باتوںکا اقرار کرے گاتو وہ حج کے بعد کس قسم کا انسان بن جائے گا۔ بشرطیکہ اس نے یہ تمام اقرار سچے دل سے کئے ہوں اور سمجھ بوجھ کر یہ الفاظ منہ سے نکالے ہوں

1560.

حضرت عائشہ ؓ  سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حج کے مہینوں، حج کی راتوں اور حج کے احرام میں روانہ ہوئے، پھر ہم نے مقام سرف میں پڑاؤ کیا۔ حضرت عائشہ ؓ  نے فرمایا کہ پھر آپ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’تم میں سے جس کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو اور اس احرام سے عمرہ کرنا چاہتا ہوتو ایسا کرسکتا ہے مگر جس کے پاس قربانی کاجانور ہو وہ ایسا نہ کرے۔‘‘ حضرت عائشہ نے فرمایاکہ آپ کے اصحاب میں سے بعض نے اس حکم سے فائدہ اٹھایا اور کچھ اس سے قاصر رہے۔ حضرت عائشہ  کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین صاحب حیثیت تھے اور ان کے پاس قربانی کے جانورتھے وہ عمرہ نہیں کرسکتے تھے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب میرے پاس تشریف لائے تو میں رورہی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’اے بھولی بھالی!کیوں روررہی ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: حضور!میں نے آپ کی وہ گفتگو سنی جو آپ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے کی ہے اور میں عمرہ نہیں کرسکتی ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا بات ہے؟‘‘عرض کیا: میں نماز کے قابل نہیں رہی۔ آپ نے فرمایا: ’’کوئی ضرر نہیں، آخر تم بھی دیگر بنات آدم کی طرح ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے مقدر میں وہی کچھ لکھاہے جو دوسری عورتوں کے لیے ہے۔ تم اپنے حج کے احرام میں رہو، شاید اللہ تعالیٰ تمھیں عمرہ نصیب کردے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ  نے فرمایا کہ ہم حج کے لیے روانہ ہوئے حتیٰ کہ جب منیٰ میں آئے تو میں حیض سے پاک ہوگئی۔ پھر میں منیٰ سے روانہ ہوئی اور غسل کے بعد بیت اللہ کا طواف کیا۔ فرماتی ہیں: پھر میں آپ کے ہمراہ کوچ کے دوسرے دن وہاں سے روانہ ہوئی یہاں تک کہ آپ نے وادی محصب میں پڑاؤ کیا۔ ہم بھی آپ کے ہمراہ وہاں ٹھہرے۔ آپ نے عبدالرحمان بن ابی بکر ؓ  کو بلایا اور فرمایا: ’’اپنی ہمشیرہ کوحرم سے باہر لے جاؤ تاکہ وہ وہاں سے عمرے کا احرام باندھے، پھر عمرے سے فارغ ہوکر تم لوگ یہیں واپس آجاؤ میں یہاں تمہارا منتظر ہوں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ  نے فرمایا کہ ہم حرم سے باہر گئے حتیٰ کہ میں ( عمرے) اور طواف سے فارغ ہوگئی۔ پھر علی الصبح رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچی تو آپ نے فرمایا: ’’تم عمرے سے فارغ ہوچکے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں! پھر آپ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کوچ کا اعلان کیا تو لوگ چل پڑے۔ اس طرح آپ نے مدینہ منورہ کی طرف متوجہ ہوکر راہ سفر اختیار فرمایا۔ لفظ لايضرك ضار يضير ضيرا سے یا ضار يضور ضورا اور ضر يضر ضرا سے مشتق بھی کہا گیا ہے۔