تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے ان صحابہ کرام ؓ کو جو قربانی ساتھ نہیں لائے تھے عمرہ کر کے احرام کھول دینے کا حکم دیا تو اس سے حج تمتع ثابت ہوا، نیز اس سے حج کو فسخ کر کے عمرے میں بدل دینے کا جواز بھی ثابت ہوا۔ (2) امام بخاری ؒ کا عنوان بھی یہی ہے، البتہ اس حدیث میں ہے کہ ہمارا صرف حج کرنے کا ارادہ تھا جبکہ حضرت عروہ کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ ؓ نے عمرے کا احرام باندھا تھا۔ (صحیح البخاري، العمرة، حدیث:1783، والمغازي، حدیث:4395) علامہ اسماعیلی نے اس روایت کو غلط قرار دیا ہے جس میں حضرت عائشہ ؓ سے احرام عمرے کا ذکر ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دور جاہلیت میں عمرے کے متعلق یہ خیال تھا کہ اسے حج کے مہینوں میں نہیں کرنا چاہیے، اس لیے صحابہ کرام ؓ حج کا احرام باندھ کر روانہ ہوئے۔ ان میں حضرت عائشہ ؓ بھی تھیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے جب وضاحت کی اور حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو جائز قرار دیا تو حضرت عائشہ ؓ نے عمرے کا احرام باندھ لیا، اس لیے حضرت عروہ کی روایت کو غلط قرار دینے کی ضرورت نہیں۔ ان مختلف روایات میں تطبیق کی یہ صورت بھی ممکن ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے حج افراد کا احرام باندھا جیسا کہ دیگر صحابہ کرام نے کیا تھا۔ مذکورہ حدیثِ اسود میں اسی کا بیان ہے۔ پھر آپ نے احرامِ حج کو عمرے میں بدل دینے کا حکم دیا تو حضرت عائشہ ؓ نے بھی اسی عمرے کے احرام میں بدل لیا جیسا کہ حدیث عروہ میں ہے لیکن جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو حضرت عائشہ اپنے عارضے کی وجہ سے عمرہ نہ کر سکتی تھیں، اس لیے آپ نے عمرہ چھوڑ دینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ تم حج کے احرام کی نیت کر لو۔ (فتح الباري:534/3)