تشریح:
(1) مکی حج کا مطلب یہ ہے کہ اہل مکہ جو مکہ ہی سے حج کا احرام باندھتے ہیں اس میں تکلیف اور محنت کم ہوتی ہے، لہذا ثواب بھی زیادہ نہیں ملے گا کیونکہ حج کا ثواب تو بقدر مشقت ہوتا ہے۔ ان لوگوں کا مطلب یہ تھا کہ جب حج تمتع کیا اور عمرہ کر کے احرام کھول دیا تو حج کا احرام مکہ سے باندھنا ہو گا، اس طرح حج کا ثواب اتنا نہیں ملے گا جتنا حج مفرد میں ملتا ہے جس کا احرام باہر سے باندھا جاتا ہے۔ عطاء ؒ نے حضرت جابر ؓ کی حدیث بیان کر کے اہل مکہ کا رد کیا جو ابو شہاب کو بلا فیس مشورے دے رہے تھے۔ اس طرح ابو شہاب کا شبہ دور ہو گیا کہ حج تمتع کرنے سے ثواب کم ملتا ہے۔ تمتع تو تمام اقسام حج سے افضل ہے اور اس میں افراد اور قران دونوں سے زیادہ ثواب ملتا ہے، نیز جو شخص حج سے چند دن پہلے عمرہ کرے اسے قصر کرنا (بال کٹوانا) چاہیے تاکہ دسویں تاریخ تک بال حلق (مونڈنے) کے قابل ہو جائیں۔ (2) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں وضاحت کی ہے کہ حضرت عطاء بن ابی رباح کے واسطے سے ابو شہاب کی صرف یہی ایک روایت متصل سند سے مروی ہے، تاہم دوسرے طرق سے اس کی متعدد روایات کتب حدیث میں مروی ہیں۔ (فتح الباري:544/3)