تشریح:
(1) بیت اللہ کے چار کونے ہیں۔ جس کونے میں حجراسود نصب ہے اس کی دو فضیلتیں ہیں: ایک تو اس میں جنت کا پتھر نصب ہے جسے حجراسود کہا جاتا ہے۔ دوسرا وہ حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر ہے۔ اس بنا پر اسے بوسہ دیا جاتا ہے۔ اگر بوسہ ممکن نہ ہو تو استلام اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اشارہ کیا جاتا ہے۔ دوسرا کونا رکن یمانی ہے۔ اس کے لیے یہی ایک برتری ہے کہ وہ قواعد ابراہیم ؑ پر ہے، اس لیے اسے چوما تو نہیں جاتا، البتہ اس کا استلام مشروع ہے۔ دوسرے دو کونے قواعد ابراہیم ؑ پر نہیں ہیں، اس لیے ان کا بوسہ یا استلام مشروع نہیں، البتہ بعض صحابہ کرام ؓ بیت اللہ کے چاروں کونوں کو استلام کرتے تھے۔ ان میں حضرت امیر معاویہ ؓ بھی ہیں جن کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے۔ (2) تفصیلی روایت بایں الفاظ ہے: ابو طفیل کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس اور حضرت امیر معاویہ ؓ کے ہمراہ حج کیا۔ حضرت امیر معاویہ بیت اللہ کے ہر کونے کا استلام کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ انہیں کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجراسود اور رکن یمانی کا استلام کیا ہے۔ ان کے جواب میں حضرت معاویہ ؓ فرماتے ہیں کہ بیت اللہ کی کوئی چیز متروک نہیں ہے۔ (فتح الباري:597/3) حضرت امیر معاویہ ؓ نے جو کچھ فرمایا اس کی بنیاد ان کے ذاتی فہم پر ہے مگر رسول اللہ ﷺ کا عمل اس پر مقدم ہے۔ امام شافعی ؒ نے اس کا خوبصورت جواب دیا ہے کہ ہم ایسا بیت اللہ کو متروک سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ اتباع سنت کی وجہ سے کرتے ہیں۔ اگر اس کونے کا استلام نہ کرنا ترک بیت اللہ ہے تو باقی کونوں کو نہ چھونا بھی ترک میں آئے گا، حالانکہ ان کا استلام نہ کرنے کو کوئی بھی ترک نہیں کہتا، اس لیے عمل اور ترک دونوں میں اتباع سنت کا جذبہ کارفرما ہونا چاہیے۔ (فتح الباري:599/3)