تشریح:
(1) اکثر محدثین کا موقف ہے کہ شامی ارکان کا استلام مسنون نہیں۔ استلام کے معنی ہاتھ سے مس کرنا ہیں۔ اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اس کے متعلق جب امیر معاویہ ؓ سے گفتگو کرتے تو درج ذیل آیت پڑھتے: ﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الأحزاب21:33) ’’تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (2) واضح رہے کہ شعبہ نے امام مسلم کی روایت میں اس واقعے کو بالکل برعکس بیان کیا ہے، یعنی حضرت ابن عباس ؓ بیت اللہ کے تمام کونوں کا استلام کرتے اور امیر معاویہ ؓ انہیں اس سے روکتے تھے، حالانکہ واقعہ اس کے برعکس ہے جس کی ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں۔ (فتح الباري:598/3) مذکورہ روایت میں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے متعلق بھی بیان ہوا ہے کہ وہ بیت اللہ کے تمام کونوں کا استلام کرتے تھے۔ اس کے متعلق تفصیل بایں طور ہے کہ جب عبداللہ بن زبیر اپنے دور حکومت میں بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے اور حطیم کو بیت اللہ میں شامل کر دیا، نیز رکن شامی اور عراقی دونوں کو قواعد ابراہیم کے مطابق استوار کیا تو تنعیم گئے، وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کیا اور بیت اللہ کے چاروں کونوں کا استلام کیا، پھر آپ کی شہادت تک لوگ بیت اللہ کے چاروں کونوں کا استلام کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عبداللہ بن زبیر ؓ نے ایک معقول وجہ کے پیش نظر طواف کرتے وقت تمام کونوں کا استلام کیا تھا، لیکن حجاج بن یوسف نے جب بیت اللہ کو پہلی بنیادوں پر تعمیر کر دیا تو پھر چاروں کونوں کے استلام کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ (فتح الباري:598/3) واللہ أعلم