تشریح:
(1) حضرت ابن عباس ؓ کا موقف ہے کہ عمرہ کرتے وقت صرف بیت اللہ کا طواف کرنے کے بعد محرم، حلال ہو جاتا ہے، اسے صفا و مروہ کی سعی کی کوئی ضرورت نہیں۔ امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ جو کوئی مکہ مکرمہ میں حج یا عمرے کی نیت سے آئے تو وہ پہلے بیت اللہ کا طواف کرے، پھر دو رکعت نفل پڑھے، اس کے بعد صفا و مروہ کی سعی کرے اور حلق کرے۔ اگر اس نے عمرے کا احرام باندھا ہے تو احرام کھول دے اور اگر حج کا احرام باندھا ہے تو احرام نہ کھولے حتی کہ آٹھویں ذوالحجہ کو منیٰ جائے اور مناسک حج ادا کرے۔ (2) حضرت عروہ نے ایک آدمی کے مسئلہ دریافت کرنے پر یہ حدیث بیان کی ہے جسے امام مسلم نے بیان کیا ہے۔ محمد بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: مجھے ایک عراقی نے کہا کہ تم حضرت عروہ بن زبیر سے سوال کرو کہ ایک آدمی صرف حج کا احرام باندھتا ہے، کیا جب وہ بیت اللہ کا طواف کرے تو احرام کھول دے؟ اگر وہ تجھے کہیں کہ اس کے لیے احرام کھولنا جائز نہیں تو انہیں کہنا کہ ایک آدمی تو اس قسم کا فتویٰ دیتا ہے، چنانچہ اس نے جب حضرت عروہ سے اس کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: اس کے لیے احرام کھولنا جائز نہیں، وہ تو حج سے فراغت کے بعد ہی احرام کھولے گا۔ میں نے مذکورہ آدمی سے جب حضرت عروہ کا جواب بیان کیا تو اس نے کہا: ایک آدمی بیان کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا تھا۔ حضرت اسماء اور حضرت زبیر ؓ نے بھی اسی طرح کیا تھا۔ وہ آدمی پھر حضرت عروہ کے پاس آیا اور اس نے مذکورہ شخص کی بات بتائی تو انہوں نے فرمایا کہ سائل کون ہے؟ وہ خود میرے سامنے کیوں نہیں آتا؟ مجھے وہ عراقی معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ اس طرح کے مسائل کا ذکر کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ رسول اللہ ﷺ کا حج بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ آئے تو سب سے پہلے وضو کر کے بیت اللہ کا طواف کیا ۔۔۔ پھر مکمل حدیث بیان کی۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3001(1235)) (3) الغرض امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ عمرہ صرف بیت اللہ کا طواف کرنے سے مکمل نہیں ہوتا جب تک صفا و مروہ کی سعی نہ کر لی جائے۔ واللہ أعلم