تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو سورہ براءت کا اعلان کرنے کے لیے ہمارے پیچھے روانہ کیا۔ وہ بھی ہمارے ساتھ اعلان کرتے تھے کہ آئندہ سال کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے اور نہ کوئی برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف ہی کرے۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:369) چنانچہ آئندہ سال حجۃ الوداع کے موقع پر کوئی مشرک حج کرنے کے لیے نہیں آیا تھا۔ (صحیح البخاري، الجزیة والموادعة، حدیث:3177) (2) دور جاہلیت میں قریش نے یہ بدعت ایجاد کی کہ باہر سے آنے والا شخص اپنے کپڑوں میں طواف نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی قریشی کے کپڑے لے کر طواف کرے (اس طرح وہ نذرانے وصول کرتے) اور کسی کے لیے ایسا ناممکن ہو تو وہ ننگا ہی طواف کر لے۔ اگر کوئی اپنے کپڑوں میں طواف کر لیتا تو اسے لامحالہ وہ کپڑے پھینکنے پڑتے۔ اسلام نے ان تمام بدعات کا خاتمہ کر دیا اور اس کے ساتھ ہی قریش کی بیت اللہ پر اجارہ داری بھی ختم ہو گئی۔ (3) اس سے ایک فقہی مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ طواف کرتے وقت اتنا لباس ضروری ہے جتنا نماز کے لیے ضروری ہے۔ (فتح الباري:610/3)