تشریح:
(1) حمس، حماست سے ہے جس کے معنی سختی کے ہیں۔ قریش کو حمس کہنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے دین میں سختی سے کام لیتے تھے۔ اس سختی کی وجہ سے وہ حدود حرم سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ حضرت جبیر بن مطعم ؓ کو اس لیے تعجب ہوا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دوران حج میں حدود حرم سے باہر میدان عرفات میں وقوف کرتے دیکھا۔ رسول اللہ ﷺ کا مقصد قریش کی اس بدعت کو اپنے عمل سے توڑنا تھا۔ (2) حضرت جبیر بن مطعم ؓ بیان کرتے ہیں کہ قریش مزدلفہ سے واپس ہو جاتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم حمس ہونے کی وجہ سے حدود حرم سے باہر نہیں نکل سکتے، نیز انہوں نے حج کے موقع پر وقوف عرفہ ترک کر دیا تھا جبکہ میں نے دور جاہلیت میں رسول اللہ ﷺ کو لوگوں کے ساتھ میدان عرفات میں ایک سواری پر وقوف کرتے دیکھا، پھر وہ لوگوں کے ساتھ مزدلفہ آئے، وہاں وقوف فرمایا اور لوگوں کے ساتھ ہی وہاں سے واپس ہوئے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ کی توفیق اور اس کے حکم سے ایسا کرتے تھے۔ (فتح الباري:652/3) (3) ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بہترین دعا یوم عرفہ کی ہے۔ اور سب سے بہترین کلمات جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیاء ؑ نے کہے ہیں وہ یہ ہیں: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو علی كل شئي قدير)‘‘ (جامع الترمذي، الدعوات، حدیث:3585) (4) واضح رہے کہ عرفہ کے دن نماز ظہر و عصر کے بعد جبل رحمت کے قریب کھڑے ہونا اور دعائیں مانگنا مستحب ہے۔ علاوہ ازیں میدان عرفات میں کسی بھی جگہ وقوف کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تو یہاں کھڑا ہوا ہوں لیکن میدان عرفہ سارے کا سارا وقوف کی جگہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2952(1218))