تشریح:
(1) اس حدیث میں اختصار ہے۔ درحقیقت رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر سو اونٹ قربانی کے طور پر ذبح کیے تھے۔ حضرت علی ؓ کو ان کا گوشت، کھالیں اور جھولیں تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1718) (2) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے جانوروں کو جھول اور قلادے پہنائے جائیں۔ ان سے تو عمل کا اظہار ہوتا ہے جبکہ ہمیں حکم ہے کہ اپنے اعمال لوگوں سے چھپائیں تاکہ ریاکاری نہ ہو جائے؟ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ حج کے تمام اعمال اظہار پر مبنی ہی، مثلا: احرام، طواف، وقوف، اسی طرح اشعار و تقلید میں بھی اظہار ہے۔ (فتح الباري:694/3) دراصل یہ انسان کی نیت پر موقوف ہے۔ اگر نیت میں نمودونمائش مقصود نہیں تو ان اعمال کے اظہار سے عنداللہ مؤاخذہ نہیں ہو گا، اور اگر نیت میں ریاکاری اور نمودونمائش ہے تو اس کی موجودگی میں کوئی عمل بھی شرف قبولیت سے ہمکنار نہیں ہوتا۔ واللہ أعلم