تشریح:
(1) عام طور پر حج کے چھ دن ہیں جو آٹھ ذوالحجہ سے شروع ہو کر تیرہ ذوالحجہ تک رہتے ہیں۔ پہلے دن کو یوم الترویہ، دوسرے کو یوم عرفہ، تیسرے کو یوم النحر، چوتھے کو یوم القر، پانچویں کو یوم نفر اول اور چھٹے کو یوم نفر ثانی کہا جاتا ہے۔ (2) ان دنوں موقع محل کی مناسبت سے لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے کے لیے امام کو چاہیے کہ وہ خطبہ دینے کا اہتمام کرے۔ پہلا خطبہ جو نویں ذوالحجہ کو دیا جاتا ہے وہ نماز سے پہلے اور باقی تین خطبے اس کے بعد ہیں۔ ان میں سے ایک خطبہ قربانی کے دن ہے۔ کچھ لوگ اس دن خطبہ کے مسنون ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ وصایا ہیں جو نبی ﷺ نے امت کو ارشاد فرمائی ہیں، اس میں حج سے متعلقہ احکام و مسائل نہیں ہیں۔ امام بخاری ؒ نے ان کی تردید کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ راوی کے نزدیک یہ خطبہ ہے جیسا کہ عرفات کے دن خطبہ دیا تھا۔ اس بنا پر قربانی کے دن خطبہ دینا بھی سنت نبوی ہے، یہ عام وعظ و ارشاد نہیں۔ چونکہ حج کا ایک مقصد عالم اسلام کو اتحاد و اتفاق کی دعوت دینا ہے، اس مقصد کے لیے بہترین ذریعہ یہ خطبات ہیں، اس لیے خطیب کو چاہیے کہ وہ مسائل حج کے ساتھ ساتھ عالمی مسائل پر بھی روشنی ڈالے، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی، نیز باہمی اتفاق و اتحاد کی دعوت دے، حج بیت اللہ کا یہی مقصود اعظم ہے۔ (3) حضرت ابن عباس ؓ سے دوسری روایت میں میدان عرفات میں خطبہ دینے کا ذکر ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ راوی حدیث ابن عباس ؓ عرفہ کے دن وعظ و ارشاد کو خطبہ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس دن خطبہ کے مسنون ہونے پر کسی کو اختلاف نہیں تو وہی راوی قربانی کے دن وعظ و نصیحت کو بھی خطبہ کا نام دیتے ہیں تو اسے اختلاف کی بھینٹ چڑھانے کی کیا ضرورت ہے۔ بہرحال دس تاریخ کو خطبہ دینا بھی مسنون ہے۔ (4) حدیث کے آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک متابعت بھی بیان کی ہے جسے امام احمد بن حنبل ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے، اس میں اگرچہ محل خطبہ کی تعیین نہیں ہے۔ (فتح الباري:726/3) واللہ أعلم