تشریح:
(1) تینوں جمرات کو کنکریاں ماری جاتی ہیں، البتہ دس ذوالحجہ کو صرف جمرۂ عقبہ کو کنکریاں ماری جاتی ہیں جو مکہ کی طرف منیٰ کی سرحد پر ہے۔ اس کے بعد گیارہ، بارہ اور تیرہ تاریخ کو تینوں جمرات کو کنکریاں مارنی ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے جمرۂ ادنیٰ کو جو منیٰ سے مکہ جاتے ہوئے پہلے آتا ہے، پھر جمرۂ وسطیٰ کو جو اس کے بعد اور جمرۂ عقبہ سے پہلے ہے، اس کے بعد جمرۂ عقبہ کو جو آخر میں ہے۔ یہ آخری جمرہ دوسرے جمرات کے مقابلے میں چار امتیازی حیثیتوں کا حامل ہے: ٭ اسے دس تاریخ کو رمی کی جاتی ہے۔ ٭ رمی کے بعد اس کے پاس کھڑے نہیں ہونا چاہیے۔ ٭ اسے دس تاریخ کو چاشت کے وقت رمی کرنی چاہیے۔ ٭ اسے وادی کے نشیب سے رمی کی جاتی ہے۔ (2) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ مبادا وبرہ بن عبدالرحمٰن اپنے امیر کی مخالفت کرے، اس لیے اسے تنبیہ فرمائی کہ جب تیرا امیر رمی کرے تو اس وقت تو بھی رمی کر کہ امیر کی مخالفت سے کوئی نقصان نہ ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ اس نے کہا: اگر میرا امیر تاخیر سے رمی کرے تو میں کیا کروں؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے حدیث بیان کر دی کہ ہم رمی کرنے کے لیے زوالِ آفتاب کا انتظار کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایام تشریق میں رمی کا وقت زوال آفتاب کے بعد ہے۔ (فتح الباري:732/3)