تشریح:
(1) مطلب یہ ہے کہ طاعات میں مال خرچ کرنا فضیلت کا باعث ہے، اسی طرح خواہشات نفس کا قلع قمع کر کے مشقت اٹھانا بھی اللہ کے ہاں زیادہ اجروثواب کا باعث ہے لیکن یہ قاعدہ کلی نہیں بلکہ اکثری ہے کیونکہ کبھی بعض عوارض کی وجہ سے تھوڑی سی عبادت زیادہ ثواب کا موجب بن جاتی ہے، مثلا: شب قدر کی عبادت ہزار ماہ کی عبادت سے افضل ہے اور ایسا زمان کی وجہ سے ہے اور مسجد حرام میں نماز پڑھنا ایک لاکھ نماز کے برابر ہے اور یہ برتری مکان کی برکت سے ہے۔ (2) واضح رہے کہ خرچ اور مشقت بھی وہ معتبر ہے جس کی شریعت مذمت نہ کرے، بے جا مال خرچ کرنا یا خواہ مخواہ خود کو مشقت میں ڈالنا شریعت میں قطعا محمود نہیں۔ (3) اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو عمرہ قریب ترین میقات سے ہو گا وہ اجروثواب میں کمی کا باعث ہے، غالبا رسول اللہ ﷺ نےجعرانه سے عمرے کا احرام باندھا تھا جو مکہ مکرمہ کے اعتبار سے سب سے دور والا میقات ہے۔ (فتح الباري:771/3) واللہ أعلم