تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے یہ حدیث دوسرے مقام پر تفصیل سے بیان کی ہے کہ جب آپ ﷺ شرائط صلح کی تحریر سے فارغ ہوئے تو آپ نے صحابۂ کرام ؓ کو حکم دیا کہ وہ اٹھیں، قربانی کریں اور اپنے بال منڈوائیں۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت ام سلمہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ آپ کسی سے بات نہ کریں، اٹھیں اور قربانی ذبح کریں، چنانچہ آپ باہر نکلے، قربانی کے جانور ذبح کیے اور سر منڈوایا۔ (صحیح البخاري، الشروط، حدیث:2731) (2) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ ترتیب صرف احصار کی صورت میں ہے کیونکہ عام حالات میں ترتیب ضروری نہیں۔ (فتح الباري:14/4) (3) قرآن کریم میں ہے کہ قربانی کے اپنے ٹھکانے پر پہنچنے تک اپنے سر نہ منڈواؤ۔ (البقرة:196:2) اس آیت کا تقاضا ہے کہ قربانی جب تک اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے حلق نہیں کرنا چاہیے جبکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی اپنی جگہ پر پہنچنے سے پہلے حلق کر دیا گیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ محصر کے لیے محل الہدی وہی جگہ ہے جہاں احصار ہوا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے احصار کے وقت مقام حدیبیہ ہی میں اپنی قربانی ذبح کی، اسے حرم کے اندر نہیں پہنچایا گیا۔ واللہ أعلم۔ اگرچہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ احصار کی صورت میں قربانی کو حرم کعبہ بھیجا جائے، جب وہاں ذبح ہو جائے تو پھر احرام کھولنے کی اجازت ہے لیکن مذکورہ حدیث سے ان کی تردید ہوتی ہے۔