تشریح:
1۔ یہ باب عنوان کے بغیر ہے، اس کی مندرجہ ذیل دو وجوہات ہیں (1)۔ فضل ماءِ کے دو معنی ہیں: ایک وہ پانی جو وضو کے بعد برتن میں بچ رہے اور دوسرے وہ پانی جو اعضائے وضو دھونے کے بعد نیچے گرے، اسے فقہاء کی اصلاح میں ماءِ مستعمل کہتے ہیں۔ پہلے باب میں ماءِ مستعمل کا بیان تھا اور اس باب میں اس پانی کا ذکر ہے جو وضو کے بعد برتن میں باقی بچ رہتا ہے۔ (2)۔ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ اگر ماسبق باب کے مضمون میں کوئی کمی رہ جائے تو بلا عنوان باب سے اس کی تلافی کرتے ہیں۔ یہاں بھی سابقہ روایات میں ماءِ مستعمل کو پینے کی اجازت کا ذکر تھا لیکن کمی یہ تھی کہ وہاں وضوئے تام نہیں بلکہ صرف ہاتھ منہ دھونے اور کلی کا ذکر تھا جو وضوئے ناقص ہے۔ اس سے اشکال ہو سکتا تھا وضوئے تام کا شاید کوئی اور حکم ہو گا۔ امام بخاری ؒ نے اس بلا عنوان میں اس کی تلافی کر دی اور ایسی حدیث پیش کی جس میں وضوئے تام کی تصریح ہے۔
2۔ حضرت سائب بن یزید ؒ کہتے ہیں: میں نے بچا ہوا پانی نوش کیا۔ اس میں دونوں احتمال ہیں کہ وضو کے بعد برتن میں بچا ہوا پانی مراد ہو یا اعضائے شریفہ سے ٹپکنے والا پانی نوش کیا ہو۔ لیکن آپ کے استعمال کردہ پانی کو برکت اور بیماری کے علاج کے لیے استعمال کرنا زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔
3۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ان احادیث سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو ماءِ مستعمل کونجس کہتے ہیں، حالانکہ ماءِ مستعمل پلید نہیں، کیونکہ ناپاک چیز برکت کے قابل نہیں ہوتی۔ پھر انھوں نے ابن منذر کے حوالے سے لکھا ہے کہ وضو کرنے کے بعد جو تری اعضاء پر باقی رہتی ہے یا وہ قطرے جو دوران وضو میں کپڑوں پر گرتے ہیں۔ ان کے پاک ہونے پر اجماع ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماءِ مستعمل بھی پاک ہے، اسے نجس قراردینا صحیح نہیں۔ (فتح الباري:388/1)
4۔ واضح رہے کہ ’’ماءِ مستعمل‘‘ کے متعلق فقہاء کا اختلاف اس وضو یا غسل سے متعلق ہے جو بطور تقرب کیا گیا ہو۔ اگر وضو پر وضو کیا گیا ہے یا محض ٹھنڈک یا نظافت کے لیے پانی استعمال ہوا ہے تو اس قسم کے پانی کے متعلق کوئی اختلاف نہیں۔ ایسا پانی طاہر و مطہر ہے۔
5۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیماربچے کو کسی بزرگ کے پاس بغرض دعا لے جانا تقوی کے خلاف نہیں ہے نیز بچوں سے پیار اور ان کے لیے خیرو برکت کی دعا کرنا سنت نبوی ہے۔ حضرت سائب بن یزید ؓ کے متعلق رسول الله ﷺ کی دعا کا یہ اثر تھا کہ آپ چورانوے (94) سال کی عمر میں تندرست و توانا تھے اور آپ کی سماعت و بصارت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3540)
6۔ اصلاحی صاحب نے اس حدیث پر بھی ’’تدبر‘‘ فرما کر اس کے انکار کا راستہ ہموار کیا ہے۔ چنانچہ مہر نبوت کے متعلق حضرت سائب بن یزید ؓ کے بیان پر بایں الفاظ تبصرہ کرتے ہیں: ’’ایک کم عمر بچے کی زبان سے بیان محل نظر ہے کیا آنحضرت ﷺ نےنماز میں جسم کا اوپر کا حصہ کھلا رکھا ہوا تھا؟ اگر ایسا ہوا ہو توسائب کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ کچھ دیکھ رہے ہیں۔ وہ مہر نبوت ہے؟ ایک بچے کا خیال اس طرف نہیں جا سکتا، ہاں اس کے منہ میں یہ بات ڈالی جا سکتی ہے۔ میرے نزدیک مہر نبوت کا تصور اصول نبوت اور دین کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا، کسی طرح یہ بات رائج کر دی گئی اور یہ بعض لوگوں میں پھیل گئی۔ ‘‘ (تدبر حدیث:290/1) اس بیان پر ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں: (1)۔ اصلاحی صاحب نے مہر نبوت کے انکار کی بنیاد اس بات پر رکھی ہے کہ نماز میں رسول اللہ ﷺ کے جسم کا اوپر کا حصہ کھلا ہوا نہیں تھا جس پر مہر نبوت کا مشاہدہ کیا جا سکتا۔ اصلاحی صاحب کی بنیاد ہی سرے سے غلط ہے، کیونکہ جب حضرت سائب بن یزید ؓ نے مہر نبوت کو دیکھا تو نبی اکرم ﷺ نمازمیں نہیں تھے۔ یہ ان کا اپنا قائم کردہ مفروضہ ہے جس کی احادیث سے تائید نہیں ہوتی۔ (2)۔ اصلاحی صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت سائب کو کیسے معلوم ہوا کہ جو کچھ وہ دیکھ رہے ہیں وہ مہر نبوت ہے؟ حضرت سائب ؓ نے اپنا مشاہدہ بیان فرمایا ہے۔ اس وقت بچپن ختم ہو چکا تھا۔ اللہ کے فضل و کرم سے چورانوے سال کی عمر میں بھی آپ تندرست و توانا تھے۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3540) نیز عہد رسالت میں پروان چڑھنے والے بچے ہمارے بچوں جیسے نہیں تھے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایسے بچے کا بھی پتہ چلتا ہے کہ چھ سات سال کی عمر میں قرآن کریم کا بہت سا حصہ یاد کر لیا تھا اور لوگوں کی امامت کا فریضہ سر انجام دیتا تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4302) (3)۔ اصلاحی صاحب نے الزام لگایا ہے کہ ان کے منہ میں یہ بات ڈالی جا سکتی ہے۔ مقام شکر ہے کہ اس روایت کی سند میں ابن شہاب زہری نہیں ہیں جو ان کے حلق کا کانٹا ہے، بصورت دیگر انھیں موردِ الزام ٹھہرادیا جاتا کہ انھوں نے یہ کام سر انجام دیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ مستشرقین و ملحدین نے مہر نبوت کا انکار اصلاحی صاحب کے منہ میں ڈالا ہے جسے انھوں نے وقت ملتے ہی اگل دیا ہے۔ (3)۔ مہر نبوت کا مشاہدہ کرنے والے تقریباً دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں جن کی تفصیل یہ ہے حضرت سائب بن یزید ؓ (صحیح البخاري، الوضو، حدیث:190) اُم خالد بنت خالد ؓ ، جابر بن سمرہ ؓ (صحیح البخاري، الجہاد والسیر، حدیث: 3071) عبد اللہ بن سرجس ؓ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6088(2346)) قرہ بن ایاس مزنی ؓ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث:4082) رمیثہ بنت عمرو ؓ (مسند أحمد: 329/6) ابو زید عمرو بن اخطب ؓ (مسند أحمد: 340/5) حضرت سلمان فارسی ؓ (مسند أحمد: 438/5) قبیلہ بنی عامر کا طبیب (مسند أحمد: 223/1) نیز امام ترمذی ؒ نے حضرت بریدہ اسلمی اور حضرت ابو سعید کا بھی حوالہ دیا ہے۔ مہر نبوت کے اثبات کے متعلق محدثین عظام نے اپنی تصانیف میں مستقل عنوان قائم کیے ہیں اور امام بخاری ؒ ، امام مسلم ؒ اور امام ترمذی ؒ نے اس پر عنوان بندی کر کے پھر مختلف احادیث سے اسے ثابت کیا ہے۔ علمائے اہل کتاب کے ہاں رسول ﷺ کی یہ امتیازی علامت معروف تھی اس سلسلے میں صرف دو شہادتیں پیش کی جاتی ہیں: (1)۔ رسول الله ﷺ جب اپنے چچا ابو طالب کے ہمرا بغرض تجارت شام کے علاقے میں گئے تو آپ کے ہمراہ قریش کے بڑے بڑے مشائخ بھی تھے، انھیں راستے میں ایک راہب ملا تو اس نے آپ کو اس مہر نبوت سے پہچانا۔ (جامع الترمذي، المناقب، حدیث: 3620) (2)۔ حضرت سلمان فارسی ؓ کو ایک راہب نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق بتایا کہ وہ صدقہ نہیں کھائیں گے، ہدیہ قبول کریں گے اور ان کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔ حضرت سلمان فارسی ؓ نے ان تینوں علامتوں کا مشاہدہ کیا اور مسلمان ہوئے۔ (مسند أحمد :443/5) اتنے حقائق کے باوجود اگر کہا جائے کہ مہر نبوت کا تصور اصول نبوت اور دین کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا تو اس کے جواب میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ خانہ ساز اور خود ساختہ ’’تدبر‘‘ کے برگ وبار اور فیوض و برکات ہیں۔ یقیناً ان حضرات نے تدبر حدیث کے نام سے انکار حدیث کا جو خار دار پودا کاشت کیا تھا، اب وہ اللہ کے ہاں ان کے کانٹوں کی چبھن ضرور محسوس کر رہے ہوں گے: ( فَهَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا) قارئین کرام کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ احادیث پر تدبر فرمانے والوں نے پہلے قرآن کریم کو تدبر کی بھینٹ چڑھایا۔ ان حضرات کی احادیث کے متعلق دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ تفسیر تدبر قرآن جو آٹھ جلدوں اور ساڑھے چار ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے ان چار ہزار آٹھ صد ستر صفحات میں گنتی کی کل چالیس احادیث ذکر کی ہیں۔ البتہ جاہلی ادب اور لغت کی باریکیوں کی طرف کافی رجحان ہے۔ انھوں نے مبادی تدبر قرآن میں تفسیر کے چار قطعی اصول بیان فرمائے ہیں: 1۔ ادب جاہلی، 2۔ نظم قرآن، 3۔ تفسیر القرآن، 4۔ سنت متواترہ اس کے بعد ظنی ماخذ کے طور پر احادیث کو قبول کیا گیا ہے، احادیث سے اس قدر بے اعتنائی بڑی معنی خیز ہے۔ نوٹ:۔ مہرنبوت کی ماہیت وکیفیت اور اس کی غایت وحکمت کتاب المناقب میں تفصیل سے بیان ہوگی۔