Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The using of the remaining water after ablution)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
جریر بن عبداللہ نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان کے مسواک کے بچے ہوئے پانی سے وضو کر لیں۔یعنی مسواک جس پانی میں ڈوبی رہتی تھی، اس پانی سے گھر کے لوگوں کو بخوشی و ضو کرنے کے لیے کہتے تھے۔
191.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی اکرم ﷺ نے ایک پیالہ منگوایا جس میں پانی تھا۔ پھر آپ نے اس پیالے میں اپنے دونوں ہاتھ اور چہرہ مبارک دھویا اور اس میں کلی فرمائی۔ پھر ان دونوں سے فرمایا: ’’اس میں سے کچھ پانی نوش جان کر لو اور کچھ اپنے چہروں اور سینوں پر ڈال لو۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس روایت کو آگے موصولاً بیان کیا ہے (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:196) بلکہ کتاب المغازی میں اس کا پس منظر بھی بیان کیا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ اور مدینہ کے درمیان جعرانہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئےتھے، آپ کے ہمراہ حضرت بلال ؓ بھی تھے۔ میں حاضر خدمت ہوا۔ آپ کے پاس ایک اَعرابی آیا اور کہنے لگا: آپ وعدے کے مطابق مجھے کچھ دیتے کیوں نہیں؟ آپ ﷺ نے حوصلہ افزائی کے طور پر فرمایا: (أَبْشِرْ) ’’تیرے لیے خوشخبری ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا: مجھے خوشخبری نہیں بلکہ مال چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ انور غصے کی وجہ سے متغیر ہو گیا اور آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس نے تو میری بشارت کو رد کردیا ہے تم دونوں (ابو موسیٰ اشعری ؓ اور بلال ؓ ) اسے قبول کر لو۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: ہم بسرو چشم قبول کرتے ہیں۔ پھر آپ نے ایک پیالہ منگوایا جس میں پانی تھا۔ اس میں اپنے ہاتھ اور چہرہ دھویا اور کلی فرمائی۔ پھر آپ نےحضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور حضرت بلال ؓ کو نوش جان کرنے کا حکم دیا اور اپنے سینوں اور چہروں پر اسے چھڑکنے کا کہا اور آپ نے انھیں دوبارہ بشارت دی۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ اتنے میں حضرت اُم سلمہ ؓ پردے کے پیچھے سے گویا ہوئیں کہ اپنی ماں کے لیے کچھ پانی بچا لینا۔ چنانچہ حضرت اُم سلمہ ؓ کے لیے کچھ پانی بچا کر رکھ لیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4328) یہ پس منظر ہم نے اس لیے بیان کیا ہے تاکہ بزعم خویش ’’تدبرقرآن‘‘ کے مدعی حضرات کی علمی بے بضاعتی کا پتہ چل جائے۔ ان کے سامنے صرف احادیث بخاری کا استخفاف ہے۔ چنانچہ اصلاحی صاحب کہتے ہیں: ’’یہ زیر بحث روایت کا حصہ نہیں بلکہ روایت پر ایک اضافہ ہے۔‘‘ (تدبر حدیث289/1) امام بخاری ؒ نے اس معلق (بےسند) روایت کو حدیث ابی جحیفہ کے بعد بیان فرمایا، وہ اس لیے نہیں کہ یہ روایت مذکورہ حدیث کا حصہ ہے بلکہ اسے ایک مستقل حدیث کے طور پر بیان فرمایا۔ لیکن اصلاحی صاحب کو بخاری کی اصلاح مقصود ہے، خواہ غیر اصلاحی طریقے سے ہو۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مستعمل پانی دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے، جب اس کا پینا درست ہے تو آٹا گوندھنے اور کھانا پکانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے صرف برکت کی خاطر دست مبارک اور چہرہ اقدس کو اس پیالے میں دھویا اور برکت ہی کے پیش نظر اس میں کلی فرمائی۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ وضو برائے تبریک تھا، یہ وضو تام نہیں اور نہ اس سے نماز پڑھنا ہی مقصود تھا، اس لیے ہم نے امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان میں اس کی وضاحت کردی تھی کہ اس میں وسعت ہے اپنی طرف سے قیود لگا کر اسے محدود نہ کیا جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
188.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
188
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
188
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
188
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں مطلق طور پر تین الفاظ استعمال کیے ہیں ان کے ساتھ کسی قید کا ذکر نہیں کیا اس بنا پر عنوان کا مفہوم بہت وسیع ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔1۔استعمال اس سے مراد پانی کو کام میں لانے کی جتنی بھی صورتیں ممکن ہیں وہ اس میں شامل ہیں مثلاً: نوش کرنا، نہانا ،کپڑے دھونا ،اور وضو کرنا وغیرہ 2۔ فضل :یہ لفظ بھی اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے یعنی اس سے مراد وہ پانی بھی ہے جو وضو کے بعد برتن میں بچ گیا ہو اور وہ بھی مراد ہے جو اعضاء کو دھوتے وقت ٹپک ٹپک کر کسی جگہ جمع ہو گیا ہو۔3۔وضو:اس میں بھی توسیع ہے کہ اس سے مراد وضوئے حدث بھی ہو سکتا ہے اور وضوئے مستحب بھی ہو سکتا ہے جسے وضو علیٰ وضو کہا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک فضل وضو دونوں معنوں کے اعتبار سے طاہر بھی ہے اور مطہر بھی جبکہ بعض لوگ اسے طاہر تو مانتے ہیں لیکن رفع حدث کے لیے دوبارہ اس قسم کے پانی کو وضو میں استعمال کرنا صحیح نہیں سمجھتے کیونکہ اس سے ایک مرتبہ طہارت حاصل کی جاچکی ہے بعض فقہاء کے نزدیک جو پانی وضو کے لیے استعمال ہو چکا ہو، اس قسم کا ماء مستعمل نجس ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ پانی جو رفع حدث کے لیے ثواب کی نیت سے استعمال کیا گیا ہے اس میں حدیث کے مطابق وہ معاصی بھی شامل ہو گئے ہیں جو وضو کرنے سے پہلے اعضاء سے سر زد ہوئے تھے اس بنا پر یہ نجاست ظاہری نہیں جو بصارت اور حواس ظاہری سے معلوم کی جا سکتی ہو بلکہ یہ نجاست معنوی ہے جس کا تعلق بصیرت اور دل کی بیداری سے ہے ان کے نزدیک اگر کسی کے صغیرہ گناہ دھلے ہیں تو یہ پانی نجاست خفیفہ کا حکم رکھتا ہے اور اگر کوئی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے توماء مستعمل نجاست غلیظہ کے حکم میں ہے لیکن اس فکر کے پس منظر میں کوئی روایت نہیں بلکہ محض عقل کے بل بوتے پر اسے نجس ثابت کیا جا رہا ہے جس کی علمی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں البتہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اس عنوان سے وہ پانی مراد ہے جو وضو کے بعد برتن میں بچ گیا ہو ۔ لیکن ہمارے نزدیک "ٖفضل"سے مراد وہ دونوں صورتیں ہیں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیاہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ایک اثر اور چند حدیثیں پیش کی ہیں جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذکورہ اثر کو ابن ابی شیبہ (1/313)اور دارقطنی نے موصولاً بیان کیا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانی میں ڈبو ڈبو کر مسواک کرتے پھر اپنے اہل خانہ کو اس پانی سے وضو کرنے کا حکم دیتے۔ دارقطنی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ تم اس پانی سے وضو کرو جس میں مسواک کو ڈبویا گیا ہے، مسواک چونکہ حدیث کے مطابق (مطهرة للفم)"منہ کو پاک کرنے کا آلہ ہے"جس طرح وجو(مطهرة للبدن) "بدن کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔"منہ کی طہارت کے لیے استعمال شدہ مسواک کا وہی حکم ہے جو بدن کی طہارت کے لیے استعمال شدہ پانی کا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بنا پر حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ اثر بیان فرمایا ہے منہ کی طہارت کے لیے استعمال شدہ مسواک پانی میں ڈالی گئی اگر وہ استعمال کے قابل نہ ہوتا تو حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے استعمال کرنے کا حکم کیوں دیتے؟امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے اس اثر کا مطلب دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانی کے برتن میں مسواک ڈالتے اور اسے استعمال کرتے جب مسواک سے فارغ ہو جاتے تو اس پانی سے وضو کر لیتے۔اس سلسلے میں ایک مرفوع روایت بھی دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے لیکن اس کی سند درست نہیں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن التین وغیرہ کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے وہ پانی مراد ہے جس میں مسواک کو نرم کرنے کے لیے تر کیا جاتا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فعل مذکور سے پانی میں کوئی تغیر نہیں آیا اور انھوں نے اس غیر متغیر پانی کو استعمال کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح پانی کو صرف استعمال کرنے سے بھی اس میں کوئی تغیر نہیں آتا لہٰذا اس سے دوبارہ طہارت حاصل کرنا ممنوع نہیں ہو گا۔( فتح الباری:1/385۔)
جریر بن عبداللہ نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان کے مسواک کے بچے ہوئے پانی سے وضو کر لیں۔یعنی مسواک جس پانی میں ڈوبی رہتی تھی، اس پانی سے گھر کے لوگوں کو بخوشی و ضو کرنے کے لیے کہتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی اکرم ﷺ نے ایک پیالہ منگوایا جس میں پانی تھا۔ پھر آپ نے اس پیالے میں اپنے دونوں ہاتھ اور چہرہ مبارک دھویا اور اس میں کلی فرمائی۔ پھر ان دونوں سے فرمایا: ’’اس میں سے کچھ پانی نوش جان کر لو اور کچھ اپنے چہروں اور سینوں پر ڈال لو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس روایت کو آگے موصولاً بیان کیا ہے (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:196) بلکہ کتاب المغازی میں اس کا پس منظر بھی بیان کیا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ اور مدینہ کے درمیان جعرانہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئےتھے، آپ کے ہمراہ حضرت بلال ؓ بھی تھے۔ میں حاضر خدمت ہوا۔ آپ کے پاس ایک اَعرابی آیا اور کہنے لگا: آپ وعدے کے مطابق مجھے کچھ دیتے کیوں نہیں؟ آپ ﷺ نے حوصلہ افزائی کے طور پر فرمایا: (أَبْشِرْ) ’’تیرے لیے خوشخبری ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا: مجھے خوشخبری نہیں بلکہ مال چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ انور غصے کی وجہ سے متغیر ہو گیا اور آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس نے تو میری بشارت کو رد کردیا ہے تم دونوں (ابو موسیٰ اشعری ؓ اور بلال ؓ ) اسے قبول کر لو۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: ہم بسرو چشم قبول کرتے ہیں۔ پھر آپ نے ایک پیالہ منگوایا جس میں پانی تھا۔ اس میں اپنے ہاتھ اور چہرہ دھویا اور کلی فرمائی۔ پھر آپ نےحضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور حضرت بلال ؓ کو نوش جان کرنے کا حکم دیا اور اپنے سینوں اور چہروں پر اسے چھڑکنے کا کہا اور آپ نے انھیں دوبارہ بشارت دی۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ اتنے میں حضرت اُم سلمہ ؓ پردے کے پیچھے سے گویا ہوئیں کہ اپنی ماں کے لیے کچھ پانی بچا لینا۔ چنانچہ حضرت اُم سلمہ ؓ کے لیے کچھ پانی بچا کر رکھ لیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4328) یہ پس منظر ہم نے اس لیے بیان کیا ہے تاکہ بزعم خویش ’’تدبرقرآن‘‘ کے مدعی حضرات کی علمی بے بضاعتی کا پتہ چل جائے۔ ان کے سامنے صرف احادیث بخاری کا استخفاف ہے۔ چنانچہ اصلاحی صاحب کہتے ہیں: ’’یہ زیر بحث روایت کا حصہ نہیں بلکہ روایت پر ایک اضافہ ہے۔‘‘ (تدبر حدیث289/1) امام بخاری ؒ نے اس معلق (بےسند) روایت کو حدیث ابی جحیفہ کے بعد بیان فرمایا، وہ اس لیے نہیں کہ یہ روایت مذکورہ حدیث کا حصہ ہے بلکہ اسے ایک مستقل حدیث کے طور پر بیان فرمایا۔ لیکن اصلاحی صاحب کو بخاری کی اصلاح مقصود ہے، خواہ غیر اصلاحی طریقے سے ہو۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مستعمل پانی دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے، جب اس کا پینا درست ہے تو آٹا گوندھنے اور کھانا پکانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے صرف برکت کی خاطر دست مبارک اور چہرہ اقدس کو اس پیالے میں دھویا اور برکت ہی کے پیش نظر اس میں کلی فرمائی۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ وضو برائے تبریک تھا، یہ وضو تام نہیں اور نہ اس سے نماز پڑھنا ہی مقصود تھا، اس لیے ہم نے امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان میں اس کی وضاحت کردی تھی کہ اس میں وسعت ہے اپنی طرف سے قیود لگا کر اسے محدود نہ کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ نے اپنے اہل خانہ کو اس پانی سے وضو کرنے کا حکم دیا جو مسواک کرنے کے بعد بچ رہا تھا۔
حدیث ترجمہ:
اور ایک دوسری حدیث میں ) ابوموسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک پیالہ منگوایا۔ جس میں پانی تھا۔ اس سے آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ دھوئے اور اسی پیالہ میں منہ دھویا اور اس میں کلی فرمائی، پھر فرمایا، تو تم لوگ اس کو پی لو اور اپنے چہروں اور سینوں پر ڈال لو۔
حدیث حاشیہ:
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کا جھوٹا پانی ناپاک نہیں۔ جیسے کہ آپ کی کلی کا پانی کہ اس کو آپ ﷺ نے انھیں پی لینے کا حکم فرمایا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مستعمل پانی پاک ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Musa (RA) said: The Prophet (ﷺ) asked for a tumbler containing water and washed both his hands and face in it and then threw a mouthful of water in the tumbler and said to both of us (Abu Musa (RA) and Bilal (RA) ), "Drink from the tumbler and pour some of its water on your faces and chests."