تشریح:
1۔ وضو کرتے ہوئے کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کی دوصورتیں ہیں: (1)۔ ایک ہی چلو سے کلی کی جائے اور ناک میں پانی ڈالا جائے۔ اس صورت کو وصل کہتے ہیں۔ 2۔ دونوں کے لیے الگ الگ پانی لیا جائے، اسے فصل کہا جاتا ہے۔ بعض ائمہ کرام کے نزدیک وصل جائز اور فصل افضل ہے، جیساکہ امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کے تحت امام شافعی ؒ کا موقف بیان کیا ہے کہ ان کے نزدیک فصل کرنا پسندیدہ عمل ہے۔ (سنن الترمذي، الطھارة، حدیث: 28) امام بخاری ؒ اس عنوان سے یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ وصل افضل ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے یہ عمل منقول ہے۔ اس روایت کے بعض طرق میں (من غرفة واحدة) کے الفاظ ہیں۔ (صحیح البخاري، الطھارة، حدیث: 199) ان الفاظ کی موجودگی میں اس توجیہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کا کام ایک ہاتھ سے سرانجام دیا، برخلاف چہرے وغیرہ کے کہ ان میں دونوں ہاتھ استعمال ہوئے ہیں۔ یہ توجیہ اس لیے بھی غلط ہے کہ ابوداؤد میں یہ الفاظ مروی ہیں کہ کلی اور ناک میں پانی ڈالنا ایک ہی پانی سے ہوتا، چنانچہ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ انھوں نے یہ دونوں کام ایک ہی دفعہ پانی لے کر کیے۔ ( سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 113) حضرت ابن عباس ؓ سے بھی اسی طرح وضو کرنے کی صراحت ہے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 137) واضح رہے کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کے لیے الگ الگ پانی لینے کا ذکر ایک حدیث میں ہے جسے امام ابوداود نے بیان کیا ہے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 139) لیکن اس روایت کو امام نووی ؒ اور حافظ ابن حجر ؒ وغیرہ نے ضعیف قراردیا ہے، نیز حافظ ابن قیم زادالمعاد میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے وضو کا طریقہ یہ تھا کہ آپ پانی کا ایک چلو لیتے آدھا پانی منہ میں اور باقی آدھا ناک میں ڈالتے۔ ( زاد المعاد: 192/1)
2۔ امام بخاری ؒ نے قبل ازیں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا۔ (باب اسْتِعْمَالِ فَضْلِ وَضُوءِ النَّاسِ) ’’لوگوں کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو استعمال میں لانا۔‘‘ بچے ہوئے پانی سے مراد برتن میں بچا ہوا پانی بھی ہوسکتا ہے اور دوران وضو میں اعضاء سے ٹپکنے والا پانی بھی ہوسکتا ہے۔ اس عنوان میں بھی امام بخاری ؒ نے اس مناسبت کو برقرار رکھا ہے۔ اس سے ناک میں پانی ڈالا جائے گا تو ظاہر ہے کہ کلی کرنے کے بعد جو پانی ہاتھ میں بچا ہے، اسی سے ناک میں پانی ڈالنے کا عمل سرانجام دیاجائے گا، گویا استعمال شدہ پانی دوبارہ کام میں لایا گیا ہے۔ اس انداز سے باب سابق کے ساتھ اس کا تعلق بھی ظاہر اور واضح ہے۔