تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے ایک آیت کریمہ کو عنوان قرار دیا، پھر حدیث نبوی کو اس کی شان نزول کے طور پر بیان کیا ہے۔ (2) دراصل امام بخاری روزے کی ابتدائی حالت اور سحری کی مشروعیت کو بیان کرنا چاہتے ہیں۔ پیش کردہ حدیث میں ہر دو مقاصد کی نشاندہی ہوتی ہے۔ آغاز کار میں مغرب کے بعد جب نیند آ جاتی تو کھانا پینا حرام ہو جاتا، پھر اگلے دن شام تک بھوکا پیاسا رہنا پڑتا، اہل کتاب کی موافقت میں سحری بھی نہ کی جاتی تھی، چنانچہ اس آیت کریمہ میں مغرب کے بعد کھانے پینے اور بیوی سے ہم بستری کرنے کی اجازت دی گئی اور سحری کی مشروعیت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ (3) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان حد فاصل سحری کا کھانا ہے، یعنی ہم سحری کرتے ہیں اور وہ سحری نہیں کرتے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2550(1096)) (4) حضرت قیس بن صرمہ ؓ کے واقعہ اور عنوان میں مطابقت اس طرح ہے کہ جب رمضان کی راتوں میں جماع کی اجازت دی گئی تو کھانا پینا بطریق اولیٰ حلال ہو گا۔ اس کے بعد صراحت کے ساتھ اس کی حلت کو ثابت کیا گیا۔ (فتح الباري:169/4) واللہ أعلم