تشریح:
(1) مسلمانوں کے ہاں ابتدائی طور پر روزے کے متعلق یہ دستور تھا کہ وہ اہل کتاب کی طرح شام کو سونے کے بعد روزہ شروع کر دیتے اور آئندہ شام تک کھانے پینے سے پرہیز کرتے، چنانچہ سنن نسائی میں ہے کہ روزہ دار جب شام کا کھانا کھانے سے پہلے سو جاتا تو رات بھر کچھ نہیں کھا سکتا تھا۔ اس آیت کریمہ اور پیش کردہ روایت میں اس ابتدائی دستور کے ختم ہونے کا اعلان ہے۔ (سنن النسائي، الصیام، حدیث:2170) (2) حضرت عدی بن حاتم ؓ نے سفید دھاگے اور سیاہ دھاگے کو حقیقت پر محمول کرتے ہوئے دونوں کو اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیا لیکن رسول اللہ ﷺ کی وضاحت کے بعد انہیں اصل حقیقت معلوم ہوئی۔ (3) اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عدی بن حاتم ؓ اس آیت کے نزول کے وقت حاضر تھے جبکہ حقیقت اس کے خلاف ہے کیونکہ رمضان کی فرضیت دو ہجری میں ہوئی اور حضرت عدی بن حاتم نو یا دس ہجری کو مسلمان ہوئے۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ یہاں کچھ عبارت مخذوف ہے، یعنی اس آیت کے نزول کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوا اور شریعت کے احکام سیکھے، اس وقت میں نے سیاہ اور سفید دھاگے اپنے تکیے کے نیچے رکھے۔ اس کی تائید امام احمد بن حنبل کی ایک روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عدی بن حاتم ؓ سے فرمایا: ’’ایسے نماز پڑھو، اس طرح روزہ رکھو، جب سورج غائب ہو جائے تو کھاؤ پیو، پھر سحری کے متعلق مسائل بیان کیے کہ کھاؤ پیو حتی کہ سیاہ دھاگے سے سفید دھاگا نمایاں ہو جائے۔‘‘ (مسندأحمد:377/4، وفتح الباري:170/4)