تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے ارشاد نبوی کو عنوان کے لیے منتخب کیا ہے۔ یہ الفاظ امام ترمذی نے بیان کیے ہیں کہ بلال ؓ کی اذان تمہیں سحری کھانے سے نہ روکے، البتہ وہ فجر جو اُفق میں عرض کے بل پھیل جائے وہ کھانے پینے کے لیے رکاوٹ کا باعث ہے۔ (جامع الترمذي، الصوم، حدیث:706) (2) دراصل صبح کی دو قسمیں ہیں: ایک صبح کاذب جو اُفق کے مشرقی کنارے پر بھیڑیے کی دم کی طرح اوپر چڑھتی ہے، اس وقت سحری کھانا جائز اور نماز فجر ادا کرنا حرام ہوتا ہے۔ اور دوسری صبح صادق جو اُفق کے مشرقی کنارے کے دائیں بائیں پھیل جاتی ہے، اس وقت سحری کھانا بند کر دیا جاتا ہے اور اس میں نماز فجر ادا کرنا جائز ہے۔ اس مضمون کو امام ابن خزیمہ ؒ نے ایک حدیث سے بیان کیا ہے۔ (صحیح ابن خزیمة:210/3) (3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت بلال ؓ سحری کی اذان کہتے تھے۔ حدیث میں اس اذان کا مقصد بایں الفاظ بیان ہوا ہے کہ تہجد پڑھنے والے گھروں کو لوٹ جائیں اور جو سو رہے ہیں وہ بیدار ہو کر سحری کا اہتمام کریں، یعنی اس کا نام اذان تہجد نہیں بلکہ اذان سحری ہے۔ (صحیح ابن خزیمة:210/3) (4) حضرت بلال ؓ اذان دے کر اسی جگہ ٹھہرتے، دعائیں پڑھتےاور فجر ثانی کا انتظار کرتے، جب طلوع فجر قریب ہوتی تو اتر کر حضرت ابن ام مکتوم ؓ کو اطلاع کرتے تاکہ وہ اذان فجر کہیں۔ ہر دو اذان میں قلیل فاصلہ ہونے کا یہی مطلب ہے۔ اس کے علاوہ صحابۂ کرام ؓ کی سحری بہت قلیل مقدار میں ہوتی تھی۔ دونوں اذانوں کے درمیان یہ قلیل فاصلہ اس وقت صحابۂ کرام ؓ کی سحری کی نشاندہی کرتا ہے۔ واللہ أعلم