قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّوْمِ (بَابُ اغْتِسَالِ الصَّائِمِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَبَلَّ ابْنُ عُمَرَ ؓثَوْبًا، فَأَلْقَاهُ عَلَيْهِ وَهُوَ صَائِمٌ وَدَخَلَ الشَّعْبِيُّ الحَمَّامَ وَهُوَ صَائِمٌ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لاَ بَأْسَ أَنْ يَتَطَعَّمَ القِدْرَ أَوِ الشَّيْءَ وَقَالَ الحَسَنُ: لاَ بَأْسَ بِالْمَضْمَضَةِ، وَالتَّبَرُّدِ لِلصَّائِمِ وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: إِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ، فَلْيُصْبِحْ دَهِينًا مُتَرَجِّلًا وَقَالَ أَنَسٌ: إِنَّ لِي أَبْزَنَ أَتَقَحَّمُ فِيهِ، وَأَنَا صَائِمٌ وَيُذْكَرُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ اسْتَاكَ وَهُوَ صَائِمٌ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: يَسْتَاكُ أَوَّلَ النَّهَارِ، وَآخِرَهُ، وَلاَ يَبْلَعُ رِيقَهُ وَقَالَ عَطَاءٌ: «إِنِ ازْدَرَدَ رِيقَهُ لاَ أَقُولُ يُفْطِرُ» [ص:31] وَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ: «لاَ بَأْسَ بِالسِّوَاكِ الرَّطْبِ» قِيلَ: لَهُ طَعْمٌ؟ قَالَ: «وَالمَاءُ لَهُ طَعْمٌ وَأَنْتَ تُمَضْمِضُ بِهِ» وَلَمْ يَرَ أَنَسٌ، وَالحَسَنُ، وَإِبْرَاهِيمُ بِالكُحْلِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا

1932. حدثنا دَخَلْنَا عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ مِثْلَ ذَلِكَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک کپڑا ترکر کے اپنے جسم میں ڈالا حالانکہ وہ روزے سے تھے اور شعبی روزے سے تھے لیکن حمام میں ( غسل کے لیے ) گئے اور ابن عباس  نے کہا کہ ہانڈی یا کسی چیز کا مزہ معلوم کرنے میں ( زبان پر رکھ کر ) کوئی حرج نہیں۔ حسن بصری نے کہا کہ روزہ دار کے لیے کلی کرنے اور ٹھنڈا حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور ابن مسعود ؓ نے کہا کہ جب کسی کو روزہ رکھنا ہو تو وہ صبح کو اس طرح اٹھے کہ تیل لگا ہوا ہو اور کنگھا کیا ہوا اور انس ؓ نے کہا کہ میرا ایک آبزن ( حوض کا پتھر کا بنا ہوا ) ہے جس میں میں روزے سے ہونے کے باجود غوطے مارتا ہوں، نبی کریم ﷺ سے یہ منقول ہے کہ آپ ﷺنے روزہ میں مسواک کی اور عبداللہ بن عمرؓ نے کہا کہ دن میں صبح اور شام ( ہر وقت ) مسواک کرے اور روزہ دار تھوک نہ نگلے اور عطاء  نے کہا کہ اگر تھوک نکل گیا تو میں یہ نہیں کہتا کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا اور ابن سیرین ہ نے کہا کہ تر مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کسی نے کہا کہ اس میں جو ایک مزا ہوتا ہے اس پر آپ نے کہا کیا پانی میں مزا نہیں ہوتا؟ حالانکہ اس سے کلی کرتے ہو۔ انس، حسن اور ابراہیم نے کہا کہ روزہ دار کے لیے سرمہ لگانا درست ہے۔تشریح : حضرت ابن مسعودؓ کے اثر مذکورہ فی الباب کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے، ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری  نے اس کا رد کیا جس نے روزہ دار کے لیے غسل مکروہ رکھا ہے کیوں کہ اگر منہ میں پانی جانے کے ڈر سے مکروہ رکھا ہے تو کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے سے بھی اس کا ڈر رہتا ہے۔ اوراس لیے اگر مکروہ رکھا ہے کہ روزہ میں زیب و زینت اور آرائش اچھی نہیں تو سلف نے کنگھی کرنا، تیل ڈالنا روزہ دا رکے لیے جائز رکھا ہے۔ حافظ نے یہ بیان نہیں کیا کہ ابن مسعودؓ کے اثرکو کس نے وصل کیا نہ قسطلانی نے بیان کیا۔ ( وحیدی )

1932.

پھر ہم حضرت ام سلمہ  ؓ کے پاس گئے تو انھوں نے بھی اسی طرح فرمایا۔