تشریح:
(1) وصال کے روزے رکھنے کے متعلق جمہور محدثین نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ متواتر روزے رکھنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت تھی کیونکہ آپ نے فرمایا: ’’میں اس سلسلے میں تمہارے جیسا نہیں ہوں۔‘‘ (2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعیان امت کے لیے وصال حرام ہے، البتہ صبح تک وصال کی رخصت ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ﷺ عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے لیکن خود پڑھا کرتے تھے، اسی طرح آپ متواتر روزے رکھنے سے منع کرتے تھے اور خود رکھا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1280) (3) رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام ؓ بہت تہذیب یافتہ اور مؤدب تھے۔ ان کا یہ کہنا کہ آپ وصال کا روزہ رکھتے ہیں بطور اعتراض نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد اس خصوصیت کا سبب معلوم کرنا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اللہ تعالیٰ نے ایسی روحانی طاقت عطا فرمائی ہے کہ مجھے بھوک یا پیاس محسوس نہیں ہوتی۔‘‘ ابن ابی حاتم نے بشیر بن خصاصیہ کی بیوی سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا: میں نے دو دن اور دو رات کا مسلسل روزہ رکھنے کا ارادہ کیا تو میرے خاوند نے اس سے منع کر دیا اور یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور اسے عیسائیوں کا عمل قرار دیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اس طرح روزہ رکھو جس طرح تمہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ رات آنے تک روزہ رکھو، رات ہونے پر فورا افطار کر لو۔‘‘ (مسندأحمد، وتفسیرابن أبي حاتم:347/6) (4) امام بخاری ؒ نے آخر میں فرمایا: میرے شیخ عثمان بن ابی شیبہ نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے کہ رسول اللہ ﷺ نے امت پر شفقت کرتے ہوئے وصال کے روزوں سے منع کیا ہے جبکہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے مذکورہ الفاظ اپنے شیخ سے سنے تھے لیکن کبھی انہیں بیان کرتے اور کبھی ان کے بغیر ہی حدیث ذکر کر دیتے۔ (فتح الباري:260/4)