تشریح:
(1) اللہ تعالیٰ کے کھلانے اور پلانے سے مراد یہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے اندر اس قدر قوت پیدا کر دیتا ہے کہ کھانے پینے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے جب اپنے صحابۂ ؓ کو وصال کے روزے سے منع فرمایا تو انہوں نے اسے ممانعت تنزیہی پر محمول کیا، ان کا مقصد آپ کی مخالفت نہیں تھا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں وصال کے روزے رکھتا جاتا ہوں حتی کہ تم اس سے عاجز آ جاؤ گے اور مجبور ہو کر تم تخفیف کا مطالبہ کرو گے جیسا کہ آپ نے طائف کے قلعے کا محاصرہ ختم کر دینے کا حکم دیا لیکن صحابۂ کرام ؓ نے اسے اپنی بزدلی پر محمول کیا، بالآخر انہیں سخت زخم آئے تو مجبور ہو کر انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے محاصرہ ختم کرنے کی درخواست کی۔ (فتح الباري:263/4) مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وصال کے روزے سے اجتناب کرو، وصال کے روزے سے احتراز کرو۔‘‘ (مسندأحمد:315/2) بلکہ ایک روایت کے مطابق آپ نے تین مرتبہ اس بات کو دہرایا۔ (المصنف لابن أبي شیبة:82/3) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ کی روایت میں اختصار ہے۔ (فتح الباري:263/4)