قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِكَافِ (بَابُ الِاعْتِكَافِ فِي العَشْرِ الأَوَاخِرِ، وَالِاعْتِكَافِ فِي المَسَاجِدِ كُلِّهَا)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلاَ تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي المَسَاجِدِ، تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلاَ تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ} [البقرة: 187]

2027. حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْتَكِفُ فِي الْعَشْرِ الْأَوْسَطِ مِنْ رَمَضَانَ فَاعْتَكَفَ عَامًا حَتَّى إِذَا كَانَ لَيْلَةَ إِحْدَى وَعِشْرِينَ وَهِيَ اللَّيْلَةُ الَّتِي يَخْرُجُ مِنْ صَبِيحَتِهَا مِنْ اعْتِكَافِهِ قَالَ مَنْ كَانَ اعْتَكَفَ مَعِي فَلْيَعْتَكِفْ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ وَقَدْ أُرِيتُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ ثُمَّ أُنْسِيتُهَا وَقَدْ رَأَيْتُنِي أَسْجُدُ فِي مَاءٍ وَطِينٍ مِنْ صَبِيحَتِهَا فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ وَالْتَمِسُوهَا فِي كُلِّ وِتْرٍ فَمَطَرَتْ السَّمَاءُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ وَكَانَ الْمَسْجِدُ عَلَى عَرِيشٍ فَوَكَفَ الْمَسْجِدُ فَبَصُرَتْ عَيْنَايَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَبْهَتِهِ أَثَرُ الْمَاءِ وَالطِّينِ مِنْ صُبْحِ إِحْدَى وَعِشْرِينَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” جب تم مساجد میں اعتکاف کئے ہوئے ہو تو اپنی بیویوں سے ہم بستری نہ کرو، یہ اللہ کے حدود ہیں، اس لیے انہیں ( توڑنے کے ) قریب بھی نہ جاؤ، اللہ تعالیٰ اپنے احکامات لوگوں کے لیے اسی طرح بیان فرماتا ہے تاکہ وہ ( گناہ سے ) بچ سکیں۔تشریح : حافظ فرماتے ہیں الاعتکاف لغۃ لزوم الشئی و حبس النفس علیہ و شرعا المقام فی المسجد من شخص مخصوص علی صفۃ مخصوصۃ و لیس بواجب اجماعاً الا علی من نذرہ و کذا من شرع فیہ فقطعہ عامدا عند قوم و اختلف فی اشتراط الصوم لہ الخ ( فتح الباری ) یعنی اعتکاف کے لغوی معنی کسی چیز کو اپنے لیے لازم کر لینا اور اپنے نفس کو اس پر مقید کرلینا اور یہ اعتکاف اجماعی طور پر واجب نہیں ہے ہاں کوئی اگر نذر مانے یا کوئی شروع کرے مگر درمیان میں قصداً چھوڑ دے تو ان پر ادائیگی واجب ہے۔ اور روزہ کی شرط کے بارے میں اختلاف ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔ اعتکاف کے لیے مسجد کا ہونا شرط ہے جو آیت قرآنی و انتم عاکفون فی المسٰجد ( البقرۃ : 187 ) سے ثابت ہے۔ و اجاز الحنفیۃ للمراۃ ان تعتکف فی مسجد بیتہا و ہوا المکان المعد للصلوۃ فیہ ( فتح ) یعنی حنفیہ نے عورتوں کے لیے اعتکاف جائز رکھا ہے اس صورت میں کہ وہ اپنے گھروں کی ان جگہوں میں اعتکاف کریں جو جگہیں نماز کے لیے مخصوص کی ہوتی ہیں۔ امام زہری اور سلف کی ایک جماعت نے اعتکاف کو جامع مسجد کے ساتھ خاص کیا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی تقریباً ایسا ہی اشارہ ہے۔ اور یہ مناسب بھی ہے تاکہ معتکف بآسانی ادائیگی جمعہ کرسکے۔ رمضان شریف کے پورے آخری عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھنامسنون ہے یوں ایک دن ایک رات یا اور بھی کوئی کم مدت کے لیے بیٹھنے کی نیت کرے تو اسے بھی بقدر عمل ثواب ملے گا۔ سنن ابو داؤد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ السنۃ علی المعتکف ان لا یعود مریضاً و لا یشہد جنازۃ و لا یمس امراۃ ولا یباشرہا و لا یخرج لحاجۃ الا لما لا بدمنہ یعنی معتکف کے لیے سنت ہے کہ وہ کسی مریض کی عیادت کے لیے نہ جائے اور نہ کسی جنازہ پر حاضر ہو اور نہ اپنی عورت کو چھوئے، نہ اس سے مباشرت کرے اور کسی حاجت کے لیے اپنی جگہ سے باہر نہ نکلے مگر جس کے لیے نکلنا بے حد ضروری ہے جیسا کہ کھانا، پینا یا قضائے حاجات کے لیے جانا۔ اگر معتکف ایسے کاموں کے لیے نکلا اور مسجد سے خارج ہی وضوءکرکے واپس آگیا تو اس کے اعتکاف میں کوئی خلل نہ ہوگا۔ باقی امور جائز و ناجائز امام بخاری نے اپنے ابواب متفرقہ میں ذکر فرما دیئے ہیں۔ المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اعتکاف کے لیے جامع مسجد کو مختار قرار دیا ہے۔ ( تحفۃ الاحوذی جلد : 2ص72 )

2027.

حضرت ابو سعید خدری  ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے۔ آپ نے ایک سال اعتکاف کیا، جب اکیسویں رات آئی اور یہ وہ رات ہے جس کی صبح آپ اعتکاف سے باہر ہوتے تھے، تو آپ نے فرمایا: ’’جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرہ بھی اعتکاف میں گزارے کیونکہ مجھے اس رات شب قدر دکھائی گئی پھر اسے میرے ذہن سے محور کردیا گیا، چنانچہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اکیسویں کی صبح پانی اور مٹی میں سجدہ کرتا ہوں۔ اس لیے تم اسے آخری عشرے میں تلاش کرو۔ خاص طور پر ہر طاق رات میں تلاش کرو۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ اس رات بادل برسا اور مسجد چونکہ کھجور کی شاخوں سے تھی، اس لیے وہ بھی بہہ پڑی۔ میری آنکھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ اکیسویں رات کی صبح آپ کی پیشانی پر پانی اور مٹی کا نشان تھا۔