تشریح:
1۔ سورۂ بقرہ کی آخری آیات میں سود کی حرمت بیان کی گئی ہے اور سودی لین دین کو اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کرنا قرار دیا گیا ہے۔(2)اگرچہ شراب کی حرمت سورۂ مائدہ میں آیت رہا سے کافی مدت پہلے نازل ہوچکی تھی۔اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجارت کو حرام قرار دیا تھا اور اس کا اعلان بھی کردیا تھا،پھر جب آیت ربا نازل ہوئی تو دوبارہ تاکید اور یاددہانی کے طور پر اس کی حرمت بیان فرمائی۔(3)واضح رہے کہ سورۂ بقرہ کے آخر میں قرض کے تحریر کرنے اور خریدوفروخت کے وقت گواہ بنانے کا زکر ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ناجائز تجارت ، یعنی سودی معاملات کو لکھنا اور اس کے متعلق گواہی دینا جائز نہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی مقصد کے لیے یہ حدیث بیان کی ہے۔( فتح الباری:4/397)