تشریح:
1۔ نیند بذات خود ناقض وضو نہیں بلکہ وضو ہونے کا اہم ذریعہ ہے، خاص طور پر جب کہ انسان کے عقل وشعور پر غالب آجائے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اونگھ کی حالت میں عمل نماز ختم کردینے کا حکم دیا ہے، کیونکہ اونگھنے والے کو پورا ہوش نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ اس کی زبان سے ایسا کلمہ نکل جائے جو اس کے حق میں بددعا ثابت ہو۔ لہٰذا عمل نماز کو باقی رکھنا مصلحت کے خلاف ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ اونگھنے سے وضو ٹوٹ گیا اور نماز باطل ہو گئی۔ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ سونے کا حکم دینے کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں: (1)۔ سونے کی وجہ سے وضو ٹوٹ گیا، لہٰذا نماز جاری رکھنا عبث ہے۔ (2)۔ بے خبری کی حالت میں نماز کا عمل جاری رکھنا مصلحت کے خلاف ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز نہ پڑھنے کے لیے دوسری علت بیان فرمائی ہے کہ مبادا دعا کے بجائے بددعا منہ سے نکل جائے۔ نماز باقی نہ رکھنے کے لیے پہلی علت تو وہ یہاں محقق ہی نہیں، یعنی وضو نہیں ٹوٹا بلکہ باقی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اونگھ یا جھونکے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
2۔ امام ابو عبداللہ محمد بن نصر المروزی نے اس حدیث کا پس منظر بایں الفاظ بیان کیا ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب ایک دفعہ حولاء بنت تویت کے پاس سے گزرے تو آپ کو بتایا گیا کہ یہ خاتون رات کے وقت لمبا قیام کرتی ہے، جب اس پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے تو چھت سے لٹکتی ہوئی رسی میں گردن ڈال دیتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے ہدایت فرمائی کہ نماز اس قدر پڑھی جائے جتنی انسان میں طاقت ہے۔ تھک کراونگھ آنے لگے تو سو جانا چاہیے۔ (مختصر قیام اللیل، ص:133)