تشریح:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اونگھ سے وضو نہیں ٹوٹتا کیونکہ ایسی حالت میں ادا شدہ نماز کو دہرانے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اگر وضو ٹوٹ جاتا تو اس دوران میں ادا کی گئی نماز کو لوٹا نے کا ضرور حکم دیا جاتا۔ اس حدیث سے مندرجہ ذیل احکام معلوم ہوتے ہیں: غلبہ نیند کے وقت نماز ختم کردینی چاہیے۔ اگر کوئی ایسی حالت میں نماز جاری رکھے گا تو اس کی نماز صحیح نہ ہوگی۔ اس سے ادنیٰ درجہ خشوع کا پتہ چلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے معلوم ہو کہ وہ خود یا اس کا امام کیا پڑھ رہا ہے۔ دوسرے مراتب خشوع مستحب کے درجے میں ہیں، غلبہ نوم سے کم درجہ اونگھ کا ہے جو نوم قلیل ہے اور اس سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ عبادات میں خشوع اور حضور قلب کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کہ اس کے بغیر نماز ادا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ (عمدة القاري:587/2)
2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام مہلب کے حوالے سے لکھا ہے کہ نماز چھوڑ کر سونے کا حکم قیام اللیل سے متعلق ہے کیونکہ کوئی بھی (فرض نماز) اوقات نیند میں نہیں اور نہ ان میں اتنی طوالت ہی ہے کہ انسان کو نیند آنے لگے۔ اگرچہ اس حدیث کا ایک پس منظر ہے جو ہم پہلے بیان کر آئے ہیں تاہم مسائل واحکام میں الفاظ کے عموم کا اعتبار کیا جاتا ہے، اگر فرض نماز میں ایسی کیفیت پیدا ہو جائے تو اسے ترک کرکے سو جانا چاہیے، بشرطیکہ اتنا وقت باقی ہو کہ سو کر اٹھنے کے بعد نماز بروقت ادا کی جا سکتی ہو۔ (فتح الباري:411/1) اس وضاحت کے بعد اصلاحی صاحب نے اس حدیث پر جو ’’تدبر‘‘ فرمایا ہے وہ بھی ملاحظہ کریں اور اندازہ لگائیں کہ یہ حضرات کس کس انداز سے حدیث کا مذاق اڑاتے ہیں: ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ ہدایت تہجد کے وقت کے لیے کی ہوگی۔ آپ نے فرمایا کہ نیند کے غلبے میں بجائے نماز پڑھنے کے سو رہے، ایسا کون غبی ہو گا جس کو دوسرے اوقات میں ایسی نیند آئے کہ اپنے آپ کو گالیاں دینے لگے۔ ان روایات کو باب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ (تدبر:305/1۔ 306) اس تدبر پر ہم اپنی طرف سے کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے اپنے قارئین کی صوابدید پر چھوڑ تے ہیں۔