تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان کو اجازت دینے یا چھوڑجانے کے ساتھ مقید کیا ہے جبکہ احادیث میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:امام بخاری ؒ نے صحیح مسلم کی روایت طرف اشارہ کیا ہے جس میں اس قید کی صراحت ہے۔ (صحیح مسلم، البیوع، حدیث:3812(1412)) اسی طرح بھاؤ پر بھاؤ لگانے کا ذکر بھی ان احادیث میں نہیں ہے، البتہ امام بخاری نے کتاب الشروط میں جس روایت کو بیان کیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:’’کوئی آدمی اپنے بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ لگائے۔‘‘ (صحیح البخاري، الشروط، حدیث:2727) (2) واضح رہے کہ ان احادیث میں پانچ احکام بیان ہوئے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ کسی دوسرے کی خریدوفروخت میں مداخلت کرنا ، یہ امر اخلاق کریمانہ سے بعید ہے کہ ایک شخص اپنا سامان بیچ رہا ہویا کوئی شخص کچھ خریدرہا ہو تو کوئی دوسرا شخص درمیان میں کود پڑے اور ان کے سودے میں مداخلت کرے۔٭دیہاتی لوگ جو اپنی اشیاء اہل شہر سے سستے داموں فروخت کرجاتے ہیں، ان سے کوئی شہری کہے کہ تم اسے فروخت نہ کرو بلکہ میرے پاس رکھ جاؤ، میں اسے مہنگے دام فروخت کروں گا۔ ایسا کرنا منع ہے کیونکہ اس سے شہر والوں کو نقصان پہنچتا ہے۔٭کچھ لوگ بھاؤ چڑھانے کے لیے بولی دیتے ہیں لیکن ان کی نیت کچھ بھی خریدنے کی نہیں ہوتی،ایسا کرنا شرعاً ناجائز ہے کیونکہ اس سے دوسروں کو نقصان پہنچتا ہے، البتہ نیلامی میں لینے کی نیت سے بڑھ چڑھ کو بولی دی جاسکتی ہے۔٭اگر کسی مرد نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا ہے،ابھی بات چیت کسی منطقی انجام کو نہیں پہنچتی کہ دوسرا اسے پیغام دے، ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ اس سے پہلے مردکی حق تلفی ہوتی ہے۔٭ کوئی عورت کسی شادی شدہ مرد سے نکاح کرنا چاہتی ہے تو وہ پہلی بیوی کو طلاق دینے کی شرط لگادے، ایسا کرنا بھی جائز نہیں۔ ایسا کرنے سے مرد اور عورت دونوں گناہ گار ہوں گے۔