قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ البُيُوعِ (بَابُ النَّهْيِ لِلْبَائِعِ أَنْ لاَ يُحَفِّلَ الإِبِلَ، وَالبَقَرَ وَالغَنَمَ)

تمہید کتاب عربی

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَكُلَّ مُحَفَّلَةٍ وَالمُصَرَّاةُ: الَّتِي صُرِّيَ لَبَنُهَا وَحُقِنَ فِيهِ وَجُمِعَ، فَلَمْ يُحْلَبْ أَيَّامًا، وَأَصْلُ التَّصْرِيَةِ حَبْسُ المَاءِ، يُقَالُ مِنْهُ صَرَّيْتُ المَاءَ إِذَا حَبَسْتَهُ

2148. حَدَّثَنَا ابْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ الْأَعْرَجِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُصَرُّوا الْإِبِلَ وَالْغَنَمَ فَمَنْ ابْتَاعَهَا بَعْدُ فَإِنَّهُ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ بَعْدَ أَنْ يَحْتَلِبَهَا إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ وَإِنْ شَاءَ رَدَّهَا وَصَاعَ تَمْرٍ وَيُذْكَرُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ وَمُجَاهِدٍ وَالْوَلِيدِ بْنِ رَبَاحٍ وَمُوسَى بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعَ تَمْرٍ وَقَالَ بَعْضُهُمْ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ وَهُوَ بِالْخِيَارِ ثَلَاثًا وَقَالَ بَعْضُهُمْ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ وَلَمْ يَذْكُرْ ثَلَاثًا وَالتَّمْرُ أَكْثَرُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اسی طرح ہر جاندار کے تھن میں (تاکہ دیکھنے والا زیادہ دودھ دینے والا جانور سمجھ کر اسے زیادہ قیمت پر خریدے) اور مصراۃ وہ جانور ہے کہ جس کا دودھ تھن میں روک لیا گیا ہو، اس میں جمع کرنے کے لءے اور کءی دن تک اسے نکالا نہ گیا ہو، لفظ تصریہ اصل میں پانی روکنے کے معنے میں بولا جاتا ہے۔ اسی سے یہ استعمال ہے صریت الماء (یعنی میں نے پانی کو روک رکھا)۔

2148.

حضرت ابوہریرہ  ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ’’اونٹنی اور بکری کے تھنوں میں دودھ نہ روکو۔ اور جس کسی نے دودھ بستہ جانور خریدا تو اسے دوہنے کے بعد خریدار کو دو باتوں میں سے بہتر اور پسندیدہ کے اختیار کرنے کاحق حاصل ہے چاہے تو اسے اپنے پاس رکھ لے اور چاہے تو اس کو واپس کر دے اور صاع بھر کھجوریں ساتھ دے۔‘‘ ابو صالح، مجاہد، ولید بن رباح اور موسیٰ بن یسار حضرت ابو ہریرۃ  ؓ سے بیان کرتے ہیں، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: ’’صاع بھر کھجوروں کا۔‘‘  کچھ راوی حضرت ابن سیرین   ؓ سے صاع بھر غلے کا ذکر کرتے ہیں، نیز کہتے ہیں کہ اسے تین دن تک اختیار ہے۔ اور بعض نے ابن سیرین  سے ’’کھجوروں کا ایک صاع‘‘ ذکر کیا ہے اورتین دن تک اختیار کا ذکر نہیں کیا، البتہ اکثر راویوں نے کھجوروں کا ذکر کیا ہے۔