تشریح:
(1) شہری آدمی کو کسی دیہاتی کی سادگی سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں ہے،دلالی کے ساتھ اس کا سامان نہ خریدے اور نہ بازار سے اسے سامان لے کرہی دے ۔(2) امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں ایک خاص اسلوب اختیار کیا ہے اور اس کے متعلق تین عنوان قائم کیے ہیں: پہلے عنوان میں ھل کے ساتھ اس کی کراہت کو ذکر کیا ۔ دوسرے عنوان میں اجرت کےساتھ اس کی خریدوفروخت کو مکروہ قرار دیا اوراس تیسرے عنوان میں دلالی کے ساتھ نفی کو مقید کیا۔صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:ہمیں منع کیا گیا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان فروخت کرے ، خواہ وہ اس کا حقیقی بھائی یا باپ ہی ہو۔(صحیح مسلم، البیوع، حدیث:3828(1523)) بہرحال منع کی صورت یہ ہے کہ ایک اجنبی آدمی دیہات یا کسی دوسرے شہر سے ایسا سامان لے کر آتا ہے جس کی تمام لوگوں کو ضرورت ہے اور وہ اس دن کے بھاؤ سے فروخت کرنا چاہتا ہے، اگر اسے شہری کہتا ہے کہ اپنا یہ سامان میرے پاس چھوڑ دوتاکہ میں اسے بتدریج اعلیٰ نرخ پر فروخت کروں۔ بعض فقہاء ان احادیث کو منسوخ کہتے ہیں جن میں ممانعت کا ذکر ہے۔ان کے ہاں ایسا کرنا مطلق طور پر جائز ہے ۔ہمارے نزدیک ان کا موقف محل نظر ہے۔(3) واضح رہے کہ جس شہری کے لیے کسی دیہاتی کا سامان فروخت کرنا جائز نہیں، اسی طرح اس کے لیے خریدنا بھی جائز نہیں کیونکہ لفظ بیع دونوں معنوں (خریدوفروخت) میں مستعمل ہے۔ والله أعلم.