تشریح:
جب ایک جنس کا باہمی تبادلہ ہوتو برابر، برابر اور نقد بنقد ہونا چاہیے، لیکن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا موقف تھا کہ دست بدست ایک دینار کو دو دینار کے عوض فروخت کیا جاسکتا ہے۔ان کے نزدیک سود صرف اس صورت میں تھا جب ایک طرف سے ادھا رہو۔ جب حضرت ابو سعید خدری ؓ کی ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے فرمایا: ابن عباس! تمھیں اللہ سے ڈرنا چاہیے۔کب تک لوگوں کو سود کھلاتے رہو گے؟پھر انھوں نے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ کھجور کے بدلے کھجور، گندم کے بدلے گندم، جوکے بدلے جو، سونے کے بدلے سونااور چاندی کے بدلے چاندی فروخت کرنا جائز ہے جب برابر برابر اور دست بدست ہو،جس نے زیادہ وصول کیا اس نے سود لیا‘‘ اس حدیث نبوی کو سن کر حضرت ابن عباس ؓ نے کہا:ابو سعید!اللہ تعالیٰ آپ کو جنت عطا فرمائے ! آپ نے مجھے ایسا کام یاد دلادیا ہے جسے میں فراموش کرچکاتھا۔ میں اللہ سے معافی مانگتا ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔اس کے بعد حضرت ابن عباس ؓ بہت سختی سے منع کرتے تھے۔( المستدرك للحاکم:43/2)چونکہ حضرت ابن عباس ؓ کا موقف دیگر صحیح احادیث کے خلاف تھا، انھوں نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا، البتہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی حدیث بھی صحیح ہے۔ اس کی حسب ذیل تاویلات کی گئی ہیں:٭ اس سود سے زیادہ سنگین کوئی نہیں جو ادھار میں ہے۔٭اس سے مختلف اجناس کا باہمی تبادلہ مراد ہے کہ وہاں سود صرف ادھار میں ہوتا ہے،اس میں کمی بیشی جائز ہوتی ہے۔والله أعلم.