تشریح:
(1)عام طور پر خریدوفروخت کرنسی کے ذریعے سے ہوتی ہے لیکن فقہاء کی اصطلاح میں خریدوفروخت کی اقسام درج ذیل ہیں:٭ مقایضہ: غلہ، کپاس وغیرہ دے کر ضرورت کی دیگر اشیاء خریدنا۔ ابتدائی دور کے بعض دیہات میں آج کل بھی گندم وغیرہ دے کر دکان سے اشیاء خریدی جاتی ہیں۔٭ مراطلہ: ایک کرنسی کی اسی کرنسی کے بدلے خریدوفروخت کرنے کو مراطلہ کیا جاتا ہے۔اس کے لیے شرط یہ ہے کہ تبادلے میں دونوں کی مقدار ایک جتنی ہو اور سودا بھی دست بدست ہو۔٭ صرف سونے کو چاندی یا ایک کرنسی کو دوسری کرنسی کے بدلے خریدوفروخت کرنے کو صرف کہتے ہیں۔ اس میں باہمی کمی بیشی تو جائز ہے مگر ادھار کی اجازت نہیں۔ایک سو گرام سونے کے عوض کئی سوگرام چاندی یا ایک ریال کے بدلے کئی روپے خریدے جاسکتے ہیں لیکن ایک ملکی کرنسی کے نئے نوٹوں کو پرانے نوٹوں کے عوض کمی بیشی سے خریدنا جائز نہیں۔٭ نقدی دے کر اشیائے ضرورت خریدنا،اس کی نقد خریدوفروخت تو ہر وقت جاری رہتی ہے۔اس میں ادھار بھی جائز ہے۔ اگر قیمت پہلے ادا کردی جائے اور چیز بعد میں لینا طے پائے تو اسے سلم کہتے ہیں اور ایسا کرنا چند شرائط کے ساتھ جائز ہے۔اسی طرح چیز لے کر قیمت بعد میں ادا کرنا بھی جائز ہے لیکن قیمت اور جنس دونوں کو ادھار رکھنا جائز نہیں۔اسے بیع سلم بھی نہیں کہا جاسکتا۔ بہر حال ان تمام اقسام کا حکم یہ ہے کہ دست بدست تو سب جائز ہیں،البتہ ادھار لین دین میں کچھ تفصیل ہے۔نقدی کا نقدی کے عوض ادھار جائز نہیں،البتہ سامان کا نقدی کے عوض ادھار جائز ہے۔اگر نقدی وصول کرکے سامان بعد میں حوالے کرنا ہے تو بھی جائز ہے۔ اگر دونوں طرف سے ادھار ہے تو یہ کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔(2) امام بخاری ؒ نے چاندی کو سونے کے عوض ادھار خریدوفروخت کرنے کے متعلق عنوان قائم کیا تھا۔حدیث سے ثابت ہوا کہ ایسا کرنا جائز نہیں۔اس میں کمی بیشی تو ہوسکتی ہے لیکن خریدوفروخت کا ہاتھوں ہاتھ ہونا ضروری ہے۔