تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے معاشرتی رواج کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے کہ خریدوفروخت اور معاملات طے کرتے وقت ملکی دستور اور معاشرتی رواج کو ملحوظ رکھنا ہوگا بشرطیکہ وہ دستور یا رواج شریعت کے خلاف نہ ہو، مثلاً: اگر کسی ملک میں کوئی کرنسی رائج ہے تو خریدوفروخت کے وقت دوسری کرنسی کی شرط نہ لگانے کی صورت میں رائج الوقت کرنسی ہی مراد ہوگی۔ (2) اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے تین احادیث ذکر کی ہیں: پہلی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے سینگی لگواتے وقت کوئی اجرت وغیرہ طے نہیں کی بلکہ عرف پر اعتماد کرتے ہوئے ایک صاع کھجور ادا کرنے کا حکم دیا، نیز ابو طیبہ ؓ کے مالک اس سے کچھ زیادہ محصول لیتے تھے رسول اللہ ﷺ نے اسے کم کروایا تاکہ رواج اور دستور کے مطابق ہوجائے۔ دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت ہند ؓ کو حضرت ابو سفیان ؓ کا مال لینے کی اجازت تو دی لیکن اس کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی بلکہ اسے عرف اور دستور پر چھوڑ دیا، یعنی اپنی حیثیت اور ضرورت کے مطابق جو علاقے کا رواج اور چلن ہے اس کے مطابق مال لینے کا حکم دیا۔ اس میں عرفی حیثیت ہی مدنظر رکھی جائے گی۔ تیسری روایت میں حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:یتیم کے سرپرست اگر نادار اور غریب ہیں تو وہ اس مال میں سے جس کی وہ دیکھ بال کرتے ہیں، دستور کے مطابق کھا سکتے ہیں، یعنی اگر دستور معروف ہے تو دین ہے اور اگر دین کے مخالف ہے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔