باب: پھلوں کی پختگی معلوم ہونے سے پہلے ان کو بیچنا منع ہے
)
Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: The sale of fruits before their benefit is evident)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2212.
حضرت سہل بن ابی حشمہ انصاری ؓ سے روایت ہے، جو بنو حارثہ سے تھے، وہ حضرت زید بن ثابت ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں لوگ پھلوں کی خریدوفروخت اس طرح کرتے تھے کہ جب پھل کاٹنے کا وقت آتا اور ایک دوسرے سے تقاضے کاوقت آتا تو خریدار کہتا: پھل دمان ہوگیا، اسے بیماری لگ گئی، اسے قشام نے آلیا۔ یہ سب پھلوں کی بیماریاں ہیں جن کا وہ ذکر کرکے آپس میں جھگڑتے تھے۔ جب اسکے متعلق بکثرت جھگڑے رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے لگے تو آپ نے فرمایا: ’’تم ایسی خریدوفروخت نہ کیاکرو تاآنکہ وہ انتفاع کے قابل ہوجائیں اور ان میں کھانے کی صلاحیت ظاہر ہوجائے۔‘‘ گویا کثرت تنازعات کی بنا پر آپ نے مشورے کے طور پر یہ ارشاد فرمایا۔ خارجہ بن زید بن ثابت نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت زید بن ثابت ؓ اپنی زمین کےپھل نہیں بیچتے تھے حتیٰ کہ ثریاستارہ طلوع ہوجاتا اور زرد پھل سرخ پھل سے نمایاں ہوجاتا۔ (زردی سرخی سے ظاہر ہوجاتی۔ ) ابوعبداللہ (امام بخاری) نے کہا: اس روایت کو علی بن بحر نے بیان کیا، وہ حکام سے، وہ عنبسہ سے، وہ زکریا سے، وہ ابوزناد سے، وہ حضرت عروہ سے انھوں نے حضرت سہل سے اور وہ حضرت زید ؓ سے(روایت کرتے ہیں۔)
تشریح:
(1)پھلوں کی صلاحیت ظاہر ہونے اور ان کے قابل انتفاع ہونے سے پہلے خریدوفروخت کے متعلق کافی اختلاف ہے۔ اس قوتِ اختلاف کی بنا پر امام بخاری ؒ نے جزم ووثوق کے ساتھ کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ ابن ابی یعلی اور امام ثوری کے نزدیک ایسا کرنا مطلق طور پر ناجائز ہے جبکہ کچھ حضرات مطلقاً اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ احناف اسے جائز کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ پھلوں کے وجود سے پہلے خریدوفروخت کرنا ممنوع ہے۔ (2) صلاحیت ظاہر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ پھلوں کی ترشی اور سختی جاتی رہے اور ان میں مٹھاس اور نرمی آجائے، یعنی وہ قابل انتفاع ہوجائیں۔ ثریا ستارے کے طلوع کے وقت پھل انتفاع کے قابل ہوجاتے تھے، اس لیے حضرت زید بن ثابت ؓ طلوع ثریا کے بعد اپنے پھلوں کو فروخت کرتے تھے۔ کثرت نزاع کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب تک پھل قابل انتفاع نہ ہو اسے فروخت نہ کیا جائے تاکہ جھگڑا وغیرہ نہ ہو۔‘‘ واضح رہے کہ دمان پھلوں کی بیماری ہے جس سے پھل سیاہ ہوجاتے تھے۔ ایک روایت میں مرض کی بجائے مراض ہے۔ مراض ایک آسمانی آفت ہے جس کے آنے سے پھل تباہ ہوجاتا تھا۔ قشام بھی ایک بیماری ہے جس سے پھل زرد ہونے سے پہلے ہی گر جاتا تھا۔ جب ایسی آفتوں اور بیماریوں سے پھل محفوظ ہوجائے تو پھر اس کی خریدوفروخت کی اجازت ہے۔ (فتح الباري:499/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2129
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2193
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2193
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2193
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
میوے کی بیع پختگی سے پہلے ابن ابی لیلیٰ اور ثوری کے نزدیک مطلقاً باطل ہے۔ بعض نے کہا جب کاٹ لینے کی شرط کی جائے تو باطل نہیں ہے ورنہ باطل ہے۔ امام شافعی اور احمد اور جمہور علماء کا یہی قول ہے۔
حضرت سہل بن ابی حشمہ انصاری ؓ سے روایت ہے، جو بنو حارثہ سے تھے، وہ حضرت زید بن ثابت ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں لوگ پھلوں کی خریدوفروخت اس طرح کرتے تھے کہ جب پھل کاٹنے کا وقت آتا اور ایک دوسرے سے تقاضے کاوقت آتا تو خریدار کہتا: پھل دمان ہوگیا، اسے بیماری لگ گئی، اسے قشام نے آلیا۔ یہ سب پھلوں کی بیماریاں ہیں جن کا وہ ذکر کرکے آپس میں جھگڑتے تھے۔ جب اسکے متعلق بکثرت جھگڑے رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے لگے تو آپ نے فرمایا: ’’تم ایسی خریدوفروخت نہ کیاکرو تاآنکہ وہ انتفاع کے قابل ہوجائیں اور ان میں کھانے کی صلاحیت ظاہر ہوجائے۔‘‘ گویا کثرت تنازعات کی بنا پر آپ نے مشورے کے طور پر یہ ارشاد فرمایا۔ خارجہ بن زید بن ثابت نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت زید بن ثابت ؓ اپنی زمین کےپھل نہیں بیچتے تھے حتیٰ کہ ثریاستارہ طلوع ہوجاتا اور زرد پھل سرخ پھل سے نمایاں ہوجاتا۔ (زردی سرخی سے ظاہر ہوجاتی۔ ) ابوعبداللہ (امام بخاری) نے کہا: اس روایت کو علی بن بحر نے بیان کیا، وہ حکام سے، وہ عنبسہ سے، وہ زکریا سے، وہ ابوزناد سے، وہ حضرت عروہ سے انھوں نے حضرت سہل سے اور وہ حضرت زید ؓ سے(روایت کرتے ہیں۔)
حدیث حاشیہ:
(1)پھلوں کی صلاحیت ظاہر ہونے اور ان کے قابل انتفاع ہونے سے پہلے خریدوفروخت کے متعلق کافی اختلاف ہے۔ اس قوتِ اختلاف کی بنا پر امام بخاری ؒ نے جزم ووثوق کے ساتھ کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ ابن ابی یعلی اور امام ثوری کے نزدیک ایسا کرنا مطلق طور پر ناجائز ہے جبکہ کچھ حضرات مطلقاً اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ احناف اسے جائز کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ پھلوں کے وجود سے پہلے خریدوفروخت کرنا ممنوع ہے۔ (2) صلاحیت ظاہر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ پھلوں کی ترشی اور سختی جاتی رہے اور ان میں مٹھاس اور نرمی آجائے، یعنی وہ قابل انتفاع ہوجائیں۔ ثریا ستارے کے طلوع کے وقت پھل انتفاع کے قابل ہوجاتے تھے، اس لیے حضرت زید بن ثابت ؓ طلوع ثریا کے بعد اپنے پھلوں کو فروخت کرتے تھے۔ کثرت نزاع کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب تک پھل قابل انتفاع نہ ہو اسے فروخت نہ کیا جائے تاکہ جھگڑا وغیرہ نہ ہو۔‘‘ واضح رہے کہ دمان پھلوں کی بیماری ہے جس سے پھل سیاہ ہوجاتے تھے۔ ایک روایت میں مرض کی بجائے مراض ہے۔ مراض ایک آسمانی آفت ہے جس کے آنے سے پھل تباہ ہوجاتا تھا۔ قشام بھی ایک بیماری ہے جس سے پھل زرد ہونے سے پہلے ہی گر جاتا تھا۔ جب ایسی آفتوں اور بیماریوں سے پھل محفوظ ہوجائے تو پھر اس کی خریدوفروخت کی اجازت ہے۔ (فتح الباري:499/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
لیث بن سعد نے ابوزناد عبداللہ بن ذکوان سے نقل کیا کہ عروہ بن زبیر، بنوحارثہ کے سہل بن ابی حثمہ انصاری سے نقل کرتے تھے اور وہ زید بن ثابت ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں لوگ پھلوں کی خرید و فروخت ( درختوں پر پکنے سے پہلے ) کرتے تھے۔ پھر جب پھل توڑنے کا وقت آتا، اور مالک ( قیمت کا ) تقاضا کرنے آتے تو خریدار یہ عذر کرنے لگتے کہ پہلے ہی ا سکا گابھا خراب اور کالا ہو گیا، اس کو بیماری ہوگئی، یہ تو ٹھٹھر گیا پھل بہت ہی کم آئے۔ اسی طرح مختلف آفتوں کو بیان کرکے مالکوں سے جھگڑتے ( تا کہ قیمت میں کمی کرالیں ) جب رسول اللہ ﷺ کے پاس اس طرح کے مقدمات بکثرت آنے لگے تو آپ نے فرمایا کہ جب اس طرح جھگڑے ختم نہیں ہوسکتے تو تم لوگ بھی میوہ کے پکنے سے پہلے ان کو نہ بیچا کرو۔ گویا مقدمات کی کثرت کی وجہ سے آپ نے یہ بطور مشورہ فرمایا تھا۔ خارجہ بن زید بن ثابت ؓ نے مجھے خبر دی کہ زید بن ثابت ؓ اپنے باغ کے پھل اس وقت تک نہیں بیچتے جب تک ثریا نہ طلوع ہوجاتا اور زردی اور سرخی ظاہر نہ ہو جاتی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؒ) نے کہا کہ اس کی روایت علی بن بحر نے بھی کی ہے کہ ہم سے حکام بن سلم نے بیان کیا، ان سے عنبسہ نے بیان کیا، ان سے زکریا نے، ان سے ابوالزناد نے، ان سے عروہ نے او ران سے سہل بن سعد نے اور ان سے زید بن ثابت ؓنے۔
حدیث حاشیہ:
قسطلانی ؒنے کہا کہ شاید آپ نے پہلے یہ حکم بطریق صلاح اور مشورہ دیا ہو جیسا کہ کالمشورة یشیر بها کے لفظ بتلا رہے ہیں۔ پھر اس کے بعد قطعاً منع فرما دیا۔ جیسے ابن عمر ؓ کی حدیث میں ہے اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ خود زید بن ثابت ؓ جو اس حدیث کے راوی ہیں اپنا میوہ پختگی سے پہلے نہیں بیچتے تھے۔ ثریا ایک تارہ ہے جو شروع گرمی میں صبح صادق کے وقت نکلتا ہے۔ حجاز کے ملک میں اس وقت سخت گرمی ہوتی ہے اور پھل میوے پک جاتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Zaid bin Thabit (ra) said, "In the lifetime of Allah's Messenger (ﷺ), the people used to trade with fruits. When they cut their date-fruits and the purchasers came to recieve their rights, the seller would say, 'My dates have got rotten, they are blighted with disease, they are afflicted with Qusham (a disease which causes the fruit to fall before ripening).' They would go on complaining of defects in their purchases. Allah's Messenger (ﷺ) said, "Do not sell the fruits before their benefit is evident (i.e. free from all the dangers of being spoiled or blighted), by way of advice for they quarrelled too much." Kharija bin Zaid bin Thabit said that Zaid bin Thabit (ra) used not to sell the fruits of his land till Pleiades appeared and one could distinguish the yellow fruits from the red (ripe) ones.