تشریح:
(1) حضرت ابراہیم ؑ نے سر زمین کنعان سے مصر جانے کے لیے رخت سفر باندھا تھا کیونکہ کنعان ان دنوں سخت قحط سالی کی زد میں تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ اپنی بیوی سارہ کے ہمراہ مصر پہنچے تو وہاں ایک ظالم حکمران تھا اور وہ انتہائی عاشق مزاج تھا،اس لیے وہ حسین وجمیل عورتوں کی تلاش میں رہتا تھا۔ جب اس نے حضرت سارہ ؓ کے حسن کا چرچا سنا تو انھیں بلایا اور ان سے بدکاری کا ارادہ کیا مگر حضرت سارہ کی بدعا سے برائی پر قادر نہ ہوسکا۔بالآخر اس کے دل میں، اس خاندان کی عظمت نقش ہوگئی اور حضرت سارہ کو واپس کردیا ، نیز اپنے خلوص وعقیدت کے پیش نظر اپنی بیٹی ہاجرہ کو ان کی نذر کردیا تاکہ وہ حضرت سارہ کی خدمت میں رہ کر تعلیم وتربیت حاصل کرے۔ (2)کتب یہود میں اس امر کی وضاحت ہے کہ حضرت ہاجرہ شاہ مصر کی بیٹی تھی۔ (3) امام بخاری ؒ کا استدلال یہ ہے کہ اس کافر بادشاہ نے اپنی شہزادی ہاجرہ بطور عطیہ پیش کی۔ حضرت سارہ نے اسے قبول فرمایا اور حضرت ابراہیم ؑ نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہ کیا۔اس سے ثابت ہواکہ کافر کے ہدیے کا اعتبار کیا جائے گا۔امین احسن اصلاحی نے حسب عادت لکھا ہے کہ حدیث میں مذکورہ قصہ یہودیوں کا گھڑا ہوا ہے جسے امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں ٹھونس دیا ہے۔ (تدبرحدیث:503/1)ہم قارئین کرام کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ فراہی فکر کے حاملین کی کوثر وتسنیم سے دھلی ہوئی زبان کا یہ ادنیٰ سانمونہ ہے۔ واضح رہے کہ مصلحین کے حلقۂ ارادت میں اصلاحی صاحب کو "الإمام" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے جبکہ علمیت کا یہ حال ہے۔لکھتے ہیں:یہ روایت صحیح بخاری کے علاوہ، جہاں تک مجھے یاد ہے، اور کہیں نہیں ہے۔(تدبرحدیث:503/1) حالانکہ یہ روایت درج ذیل کتب حدیث میں دیکھی جاسکتی ہے:٭ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث :6145 (2371).٭ سنن أبي داود، الطلاق، حدیث:2212.٭ جامع الترمذي، التفسیر، حدیث:3166.٭مسند أحمد :403/2. اس مقام پر اصلاحی صاحب نے ایک اعتراض بایں الفاظ اٹھایا ہے:اس قصے میں حضرت ابراہیم ؑ کو ایک ایسا جھوٹ بولنے کا مرتکب گردانا گیا ہے جس کا زمین وآسمان میں کوئی فائدہ نہیں، حالانکہ محدثین کرام نے اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ اگر اس کافر کو پتہ چل جاتا کہ یہ ان کی بیوی ہے تو وہ اس کے حصول کے لیے طلاق کی ناپاک کوشش کرتا یا آپ کو قتل کرنے کی گندی جسارت کرتا، اس لیے آپ نے اپنی بیوی کو بہن کہا،چنانچہ علامہ قسطلانی نے لکھا ہے:اس جابر ظالم کی یہ عادت تھی کہ وہ خاوند والی عورت پر ہاتھ ڈالتا اور خاوند کو قتل کرکے اس کی بیوی پر قبضہ جمالیتا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے یہ ذو معنی لفظ استعمال فرمایا اور اس طرح اس ظالم کی ناپاک اور مذموم جسارت سے محفوظ رہے۔