تشریح:
(1) اس مقدمے میں بات حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی مانی جاتی یا عبد بن زمعہ کی تسلیم کی جاتی دونوں صورتوں میں بیٹا کافروں کا ہے لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس مقدمے کی سماعت فرمائی۔ زمعہ کی لونڈی اور اس کی ملکیت کو برقرار رکھا اور اس کا انکار نہ کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشرک کا اپنی ملکیت میں ہر طرح کا تصرف جائز ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ کفار کا آزاد کرنا معتبر ہے۔ ان کی لونڈیاں اور ان کی جائیداد ان کی ملکیت ہوں گی اور دیگر معاملات میں بھی ان کے حقوق کو تسلیم کیا جائے گا۔یہ نہیں کہا جائے گا کہ چونکہ یہ لوگ کافر ہیں، اس لیے ان کا کوئی اعتبار نہیں۔ اگر ان سے جنگ کا معاملہ پیش آجائے تو اس کے اصول وضوابط الگ ہیں۔ (3) قانونی اعتبار سے شکل وصورت کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ اس کا بیٹا تسلیم کیا جائے گا جس کے گھر اس کی پیدائش ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت سودہ ؓ کو احتیاطاً پردے کا حکم دیا کیونکہ اس کی شکل وصورت عتبہ بن ابی وقاص سے ملتی جلتی تھی۔ والله أعلم.