تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس عنوان سے خاص حالات وظروف کے پیش نظر کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا جواز ثابت کرنا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ بیٹھ کر پیشاب کرنے کا ذکر اس لیے کردیا ہے تاکہ دوسری صورت بھی پیش نظر رہے۔ بلاشبہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا جائز ہے بشرطیکہ معمولی چھینٹے بھی کپڑوں اور بدن پر نہ آئیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں دونوں صورتوں کا ذکر کیا ہے، لیکن احادیث صرف پہلی صورت سے متعلق بیان کی ہیں۔ شارحین نے اس کی متعدد توجہیات ذکر کی ہیں۔: © ابن بطال نے لکھا ہے کہ جب احادیث سے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی اجازت ثابت ہوئی تو بیٹھ کر پیشاب کرنے کی اجازت بالاولیٰ ثابت ہوگئی، لہٰذا اس سے متعلقہ احادیث ذکر کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ (شرح ابن بطال:334) (الف) ۔ علامہ عینی نے لکھا ہے کہ بیٹھ کر پیشاب کرنا مشہور ومتعارف تھا اور بیشتر لوگوں کا عمل بھی اس پر تھا، اس لیے بیٹھ کر پیشاب کرنے کی احادیث کا حوالہ نہیں دیا۔ (عمدة القاري:620/2) (ب)۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اصول میں سے ہے کہ جب کوئی روایت ان کی شرط کے مطابق نہ ہوتو اس کی طرف عنوان میں اشارہ کردیتے ہیں، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیٹھ کر پیشاب کیا تو کہنے والوں نے کہا: دیکھو آپ عورتوں کی طرح بیٹھ کر پیشاب کرتے ہیں۔ (سنن نسائي، الطھارة، حدیث:30) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اسے نقل فرمایا ہے۔ (فتح الباري:427/1) (ج) ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک امام موصوف کی غرض عقد باب سے صرف یہ ہے کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کے جواز کے قائل ہیں اور ان کے نزدیک اس کا جواز صرف قعود (بیٹھنے) کے ساتھ مخصوص نہیں۔
2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے کسی قسم کی نہی ثابت نہیں۔ اگرچھینٹے وغیرہ پڑنے کا امکان نہ ہو تو اس کے جواز میں کوئی شک نہیں۔ (فتح الباري:430/1) البتہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: میں ایک دفعہ کھڑے ہوکر پیشاب کررہا تھا، مجھے رسول اللہ ﷺ نے دیکھا تو فرمایا: ’’اے عمر! کھڑے ہوکر پیشاب نہ کیا کرو۔‘‘ اس کےبعد میں نے کبھی کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا۔ (ابن ماجة، الطھارة، حدیث:308) لیکن یہ روایت عبدالکریم بن ابی المخارق کی وجہ سے سخت ضعیف ہے جس سے استدلال نہیں کیاجاسکتا۔ (جامع الترمذي، الطھارة، حدیث: 12) علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے ضعیف قراردیا ہے۔(سلسلة الأحادیث الضعیفة، حدیث: 934) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح روایت بایں الفاظ ہے کہ جب سے میں مسلمان ہوا ہوں میں نے کبھی کھڑے ہو کرپیشاب نہیں کیا۔ (المصنف لابن أبي شیبة:148/1) بلکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کے خلا ف بھی مروی ہے، چنانچہ زید بن وہب بیان کرتے ہیں کہ میں نے خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کھڑے ہوکر پیشاب کرتے دیکھا ہے۔ (المصنف لابن أبي شیبة: 147/1) مصنف ابن ابی شیبہ اور دیگر کتب حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کھڑے ہوکرپیشاب کرنا منقول ہے۔ (المصنف لابن أبي شیبة:147/1) جن حضرات نے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو مکروہ تحریمی یا تنزیہی لکھا ہے ان حقائق کے پیش نظر ان کا موقف صحیح نہیں۔ 3۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک حدیث میں ہے، انھوں نے فرمایا کہ جو شخص تمھیں رسول اللہ ﷺ کے متعلق بتائے کہ آپ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا اس کی تصدیق نہ کرو۔ آپ تو بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے۔ (سنن النسائی، الطھارة، حدیث 29) بظاہر یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ حدیث کے معارض ہے۔ اس کے متعلق شارحین کا موقف حسب ذیل ہے: © محدث ابوعوانہ اور ابن شاہین نے حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پیش نظر حدیث حذیفہ کو منسوخ ٹھہرایا ہے لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ بات اپنے علم کے اعتبار سے کہی ہے، چنانچہ گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بیٹھ کر پیشاب کرنے ہی کا ہے لیکن گھر کے علاوہ باہر کے عمل سے آپ مطلع نہ ہو سکیں۔ لیکن حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ہیں، لہٰذا گھر سے باہر ان کا مشاہدہ ناقابل تردید ہے۔ امام نسائی نے اپنی سنن میں اس موقف کے مطابق عنوان بندی کی ہے چنانچہ انھوں نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (الرخصة في البول في الصحراء قائما) ’’آبادی سے باہر کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا جواز۔‘‘ اس کے تحت وہ حدیث حذیفہ لائے ہیں۔ (سنن النسائي، الطھارة، حدیث 26) دوسرا باب ان الفاظ سے قائم کرتے ہیں: (البول في البيت جالسا) ’’گھر میں بیٹھ کر پیشاب کرنا‘‘ اس کے تحت حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے۔ (سنن النسائي، الطھارۃ، حدیث 29) دوسرا جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق عام عادت کی نشاندہی فرمائی ہے، مخصوص حالات میں اگر اس کے برعکس ہوا ہے تو اس کے منافی نہیں۔ مخصوص حالات حسب ذیل ہوسکتے ہیں:
* اس کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پربیٹھنے کے لیے جگہ نہ تھی چونکہ وہ مخروطی شکل کا تھا، پیشاب آپ کی طرف لوٹ آنے کا اندیشہ تھا، اس بنا پر آپ نے کھڑے کھڑے پیشاب سے فراغت حاصل کی۔
* عربوں کے نزدیک کھڑے ہو کر پیشاب کرنا، درد کمر کاعلاج تھا۔ ممکن ہے کہ آپ کو بھی کوئی شکایت ہو اور آپ نے بطور علاج ایسا عمل کیا ہو۔ اس سلسلے میں کچھ ضعیف روایات مروی ہیں۔(المستدرك للحاکم 241/4 ۔ والسنن الکبریٰ للبیهقي، 101/1) لیکن اس سلسلے میں بے تکلف بات یہ ہے کہ بیان جواز کے لیے آپ نے یہ عمل کیا ہے۔ بوقت ضرورت کھڑے ہو کر پیشاب کرنے میں چنداں حرج نہیں بشرط یہ کہ اس کے چھینٹوں سے جسم یاکپڑے آلودہ ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ واللہ أعلم۔