Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The pouring of water over the urine in the mosque)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
224.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک دیہاتی کھڑا ہوا اور اس نے مسجد ہی میں پیشاب کر دیا۔ لوگوں نے اسے روکنا چاہا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول بہا دو کیونکہ تم لوگ آسانی پیدا کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو، تمہیں سختی کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا۔‘‘
تشریح:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ پیشاب کی نجاست میں مسجد اور غیر مسجد کا فرق نہیں، جس طرح غیر مسجد کا فرش پیشاب سے ناپاک ہوجاتا ہے اسی طرح مسجد کافرش بھی پیشاب کرنے سے نجاست آلودہ ہوجائے گا، جیسے باہر کی زمین پانی بہا دینے سے پاک ہوجاتی ہے، اسی طرح مسجد کی زمین پر بھی پانی بہادینا طہارت کے لیے کافی ہے۔ شاید کسی کے دل میں یہ خیال آئے کہ مسجد عبادت کی بنا پر ایک خاص شرف کی حامل ہے۔ اس لیے اس کی طہارت کے لیے کوئی خاص طریقہ ہوگا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے واضح فرمادیاکہ کہ بلاشبہ مساجد یقیناً ایک خاص شرف کی حامل ہیں۔ لیکن ناپاک ہونے کی صورت میں ان کی طہارت کا طریقہ وہی ہے جو عام زمینوں کاہے۔ اس پر بظاہر یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ پیشاب پر پانی بہانے سے تو وہ مزید پھیل جائےگا اور اور مسجد کی ناپاکی میں مزید اضافہ ہوگا۔ لیکن بات یہ ہے کہ جب اس پیشاب پر پانی بہایا جائےگا تو وہ مغلوب ہوکرجاری پانی کے حکم میں ہوجائے گا، اس طرح وہ جگہ پاک ہوجائے گی۔ اس حدیث پر امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے کہ زمین جب ناپاک ہوجائے تو اس پر پانی بہادینا کافی ہے، اسے کھودنے کی ضرورت نہیں۔ ’’ یُسر اور تیسیر‘‘ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ زمین کی طہارت کے لیے طریقہ نبوی پراکتفا کیا جائے۔ حافظ ا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ زمین کھودنے کے متعلق جن احادیث کا سہارا لیا جاتا ہے، وہ صحیح نہیں اور کچھ مرسل روایات ہیں جو قابل استدلال نہیں۔ (فتح الباري:424/1) واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
221
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
220
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
220
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
220
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک دیہاتی کھڑا ہوا اور اس نے مسجد ہی میں پیشاب کر دیا۔ لوگوں نے اسے روکنا چاہا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول بہا دو کیونکہ تم لوگ آسانی پیدا کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو، تمہیں سختی کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ پیشاب کی نجاست میں مسجد اور غیر مسجد کا فرق نہیں، جس طرح غیر مسجد کا فرش پیشاب سے ناپاک ہوجاتا ہے اسی طرح مسجد کافرش بھی پیشاب کرنے سے نجاست آلودہ ہوجائے گا، جیسے باہر کی زمین پانی بہا دینے سے پاک ہوجاتی ہے، اسی طرح مسجد کی زمین پر بھی پانی بہادینا طہارت کے لیے کافی ہے۔ شاید کسی کے دل میں یہ خیال آئے کہ مسجد عبادت کی بنا پر ایک خاص شرف کی حامل ہے۔ اس لیے اس کی طہارت کے لیے کوئی خاص طریقہ ہوگا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے واضح فرمادیاکہ کہ بلاشبہ مساجد یقیناً ایک خاص شرف کی حامل ہیں۔ لیکن ناپاک ہونے کی صورت میں ان کی طہارت کا طریقہ وہی ہے جو عام زمینوں کاہے۔ اس پر بظاہر یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ پیشاب پر پانی بہانے سے تو وہ مزید پھیل جائےگا اور اور مسجد کی ناپاکی میں مزید اضافہ ہوگا۔ لیکن بات یہ ہے کہ جب اس پیشاب پر پانی بہایا جائےگا تو وہ مغلوب ہوکرجاری پانی کے حکم میں ہوجائے گا، اس طرح وہ جگہ پاک ہوجائے گی۔ اس حدیث پر امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے کہ زمین جب ناپاک ہوجائے تو اس پر پانی بہادینا کافی ہے، اسے کھودنے کی ضرورت نہیں۔ ’’ یُسر اور تیسیر‘‘ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ زمین کی طہارت کے لیے طریقہ نبوی پراکتفا کیا جائے۔ حافظ ا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ زمین کھودنے کے متعلق جن احادیث کا سہارا لیا جاتا ہے، وہ صحیح نہیں اور کچھ مرسل روایات ہیں جو قابل استدلال نہیں۔ (فتح الباري:424/1) واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں شعیب نے زہری کے واسطے سے خبر دی، انھوں نے کہا مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ ایک اعرابی کھڑا ہو کر مسجد میں پیشاب کرنے لگا۔ تو لوگ اس پر جھپٹنے لگے۔ ( یہ دیکھ کر ) رسول کریم ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی بھرا ہوا ڈول یا کچھ کم بھرا ہوا ڈول بہا دو۔ کیونکہ تم نرمی کے لیے بھیجے گئے ہو، سختی کے لیے نہیں۔
حدیث حاشیہ:
درمیان میں روکنے سے بیماری کا اندیشہ تھا، اس لیے آپ ﷺ نے ازراہِ شفقت اسے فارغ ہونے دیا اور بعد میں اسے سمجھادیا کہ آئندہ ایسی حرکت نہ ہو اور اس جگہ کو پاک کرادیا۔ کاش! ایسے اخلاق آج بھی مسلمانوں کو حاصل ہوجائیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): A Bedouin stood up and started making water in the mosque. The people caught him but the Prophet (ﷺ) ordered them to leave him and to pour a bucket or a tumbler of water over the place where he had passed the urine. The Prophet (ﷺ) then said, "You have been sent to make things easy and not to make them difficult."