تشریح:
(1) مطلب یہ ہے کہ درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کی خریدوفروخت اس وقت جائز ہے جب وہ کھانے کے قابل ہوجائیں، استعمال کے لائق ہوجائیں،پورا پکا ہوا نہ سہی نیم پختہ ہونا ضروری ہے۔ اس سے پہلے ان کی خریدوفروخت جائز نہیں۔ ہاں اگر درخت کے ذکر کے بغیر صرف اس طرح معاملہ طے کیا جائے کہ اتنے من یا اتنے ٹوکرے کھجور درکار ہے اور ان کی قیمت پیشگی ادا کردی جائے تو بیع سلم جائز ہے۔ فروخت کرنے والا جہاں سے بھی فراہم کرے اور اس کے پاس کھجور کا ایک بھی درخت نہ ہو۔ٹھیکیدار کی حیثیت سے یہ معاملہ شرعاً جائز ہے۔ درخت پر لگی کھجوروں کا وزن کرنا ناممکن ہے،اس لیے وزن کیے جانے کے یہ معنی کیے گئے کہ اس سے مراد انھیں اتار کر محفوظ کرلینا ہے۔ خرص،وزن اور أکل سب کے ایک ہی معنی ہیں کہ وہ کھانے کے قابل ہوجائیں۔ (2) امام بخاری ؒ کا ان احادیث سے یہ مقصد ہے کہ درخت پر لگی کھجوروں کے متعلق بیع سلم درست نہیں کیونکہ اس میں دھوکے اور نقصان کا اندیشہ ہے۔