تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے قبل ازیں بیان کیا تھا کہ ایسا اجارہ جائز ہے جس میں وقت کی تعیین تو ہو لیکن عمل کی وضاحت نہ ہو۔ اسی طرح اگر عمل کی تعیین ہو لیکن مدت مقرر نہ ہوتو ایسا جارہ بھی جائز ہے، شرعاً اور عرفاً اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ یہ دوسری قسم کا اجارہ ہے۔ امام بخاری کا میلان اس کے جواز کی طرف ہے، اس کے لیے انھوں نے ایک قرآنی واقعے سے استدلال کیا ہے کہ عمل کاتعیین عقد اجارہ کے لیے ضروری اور شرط نہیں بلکہ الفاظ کے بجائے مقاصد کا لحاظ رکھا جائے گا۔ وقت کا معاملہ بھی اسی طرح ہے۔ (2) حضرت موسیٰ اور حضرت خضر ؑ کا واقعہ قرآن میں تفصیل سے بیان ہوا ہے، اس میں دیوار کو سیدھا کردینے کا بھی ذکر ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس قسم کی مزدوری کرنے کا جواز ثابت کیا ہے اور ان کا استدلال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کا خیال تھا کہ آپ کو گاؤں والوں سے اس قسم کے کام کی اجرت لینی چاہیے تھی کیونکہ انھوں نے بے مروتی کا ثبوت دیتے ہوئے انھیں کھانا نہیں کھلایا۔ بہر حال اس قسم کا اجارہ جائز ہے۔ شارح بخاری ابن منیر کہتے ہیں کہ امام بخاری کے نزدیک عقد اجارہ تعیینِ عمل سے منعقد ہوجاتا ہے جیسا کہ تعیین مدت سے اس کا عقد جائز ہے۔ (فتح الباري:563/4) (3) واضح رہے کہ سابقہ شرائع ہمارے لیے حجت ہیں بشرطیکہ ان کا کوئی قاعدہ ہماری شریعت کے خلاف نہ ہو۔ مذکورہ استدلال کی بنیاد بھی اس اصول پر ہے۔ والله أعلم.