تشریح:
(1) اس حدیث میں یہودو نصاریٰ اور اہل اسلام کی ایک تمثیل ذکر کی گئی ہے کہ یہودو نصاریٰ نے وحی الہٰی کا نور پھیلانے میں اپنی شرعی ذمہ داریوں کو پورے طور پر ادا نہیں کیا بلکہ وہ وقت سے پہلے ہی اپنا کام اور مزدوری چھوڑ کر بھاگ نکلے، البتہ اہل اسلام نے اپنی ذمہ داری کو پورا کیا جس کے نتیجے میں قرآن مجید اور اسوۂ رسول دونوں محفوظ ہیں اور جب تک اللہ چاہے گا وہ دونوں محفوظ رہیں گے۔ (2) اس تمثیل اور حضرت ابن عمر ؓ کی بیان کردہ حدیث کی مثال میں کچھ فرق ہے۔ دراصل یہ دو الگ الگ واقعات ہیں کیونکہ ابن عمر ؓ کی روایت کے مطابق مالک نے صبح سے دوپہر تک یہودیوں کو اور دوپہر سے عصر تک عیسائیوں کو مزدور رکھا جبکہ مذکورہ حدیث میں ہے کہ مالک نے انھیں دن بھر کے لیے ایک مقررہ اجرت پر کام کرنے کے لیے رکھا، اسی طرح اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودونصاریٰ نے کچھ مزدوری نہیں لی جبکہ حضرت ابن عمر ؓ کی روایت میں ہے کہ انھوں نے ایک، ایک قیراط پر کام کیا اور اپنی اپنی مزدوری لے کر چلے گئے۔ (3) دراصل مزدوری چھوڑنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے بعد میں آنے والے نبی کے زمانے کو پایا لیکن اسے ماننے سے انکار کردیا اور مزدوری لینے والے وہ لوگ ہیں جو بعد میں آنے والے نبی سے پہلے فوت ہوگئے اور سابقہ شریعت منسوخ ہونے سے پہلے تک زندہ رہے۔ (4) امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ جز وقتی کام کےلیے مزدور رکھا جاسکتا ہے، ضروری نہیں کہ پورے دن کی مزدوری پر کسی کو رکھا جائے۔ ان مثالوں سے غرض یہ ہے کہ اس امت کے اعمال کا ثواب دوسری امتوں کے اعتبار سے زیادہ ہے اور دوسری مثال اس لیے ہے کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہیں لائے، ان کے پہلے دین میں کیے ہوئے اعمال بھی بے کار ہیں، انھیں ان کا کچھ ثواب نہیں ملے گا۔ والله أعلم.