تشریح:
(1) بار برادری کرکے مزدوری کرنے میں انسان کی توہین نہیں بلکہ بوجھ اٹھالینا سوال کرنے کی ذلت سے بہتر ہے۔ جس طرح کام کاج اور مزدوری چھوڑ دینا سوال کرنے کی ذلت کا باعث ہے، اسی طرح صدقہ وخیرات ترک کرنا اخروی افلاس اور ذلت کا باعث بنتا ہے۔ ایک حدیث میں بہتریں صدقہ اسے قرار دیا گیا ہے کہ انسان اس کے بعد خود محتاج نہ بن جائے بلکہ غنی رہے۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث:1426) اس حدیث سے وہم پیدا ہوتا ہے کہ صدقہ وہ مال دار آدمی کرے جس کی رقم ضروریات سے زائد ہو اور جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ صدقہ وخیرات نہ کرے۔ امام بخاری ؒ نے اس وہم کو دور کرنے کے لیے مذکورہ عنوان اور حدیث کو پیش کیا ہے کہ دور اول میں صحابۂ کرام ؓ کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے انھیں خیرات کرنے کا حکم دیتے تو وہ منڈی جاتے اور بار برادری کرکے کچھ غلہ حاصل کرتے اور اسے اللہ کی راہ میں دے دیتے۔ (2)صحابۂ کرام ؓ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا کتنا جذبہ رکھتے تھے! لیکن افسوس کے آج لاکھوں رکھنے والے صدقہ وخیرات کا خیال ہی نہیں کرتے۔ صحابۂ کرام مزدوری اس لیے کرتے تھے کہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ یقیناً یہ وہ انفاق ہے جس سے دل میں نور حکمت پیدا ہوتا ہے جو بہت بڑا خزانہ ہے۔