تشریح:
(1) اس حدیث میں اگرچہ واپس کرنے کی صراحت نہیں ہے، تاہم امام بخاری ؒ نے اپنی عادت کے مطابق اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے امام مسلم ؒ نے بیان کیا ہے:’’انھیں واپس کرو کیونکہ یہ سودی معاملہ ہے ۔‘‘ (صحیح مسلم، المساقاةوالمزارعة، حدیث:4084(1594)) دراصل اس قسم کا واقعہ دو مرتبہ پیش آیا: ایک واقعہ تحریم ربا سے پہلے کا ہے، وہاں آپ نے اس بیع کو مسترد کرنے کا حکم نہیں دیا اور دوسرا تحریم ربا کے بعد کا ہے، اس میں رسول اللہ ﷺ نے اس بیع کو مسترد کرنے کا حکم دیا۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر وکیل نے کوئی بیع فاسد کر ڈالی ہے تو یہ نافذ نہیں ہوگی بلکہ اسے مسترد کرتے ہوئے سودا واپس کرنا ہوگا۔ (فتح الباري:417/4) (3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سود حرام ہے اور اسے کسی صورت میں لینا جائز نہیں اگرچہ وہ کسی وجہ سے ہمارے اکاؤنٹ میں جمع ہی کیوں نہ ہو۔