قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المُزَارَعَةِ (بَابُ فَضْلِ الزَّرْعِ وَالغَرْسِ إِذَا أُكِلَ مِنْهُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ، أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ، لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا} [الواقعة: 64]

2320. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ح و حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ وَقَالَ لَنَا مُسْلِمٌ حَدَّثَنَا أَبَانُ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ حَدَّثَنَا أَنَسٌ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور ( سورۃ واقعہ میں ) اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ” یہ تو بتاؤ جو تم بوتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو، یا اس کے اگانے والے ہم ہیں، اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا بنا دیں۔ “ تشریح : مزارعہ باب مفاعلہ کا مصدر ہے جس کا ماخذ زرع ہے، امام المجتہدین و سید المحدثین حضرت امام بخاری نے یہاں بھی فضائل زراعت کے سلسلہ میں پہلے قرآن پاک کی آیت نقل فرمائی۔ جس میں ارشاد باری ہے افریتم ما تحرثون ءانتم تزرعونہ ام نحن الزارعون ( الواقعہ63,66 ) یعنی اے کاشتکارو ! تم جو کھیتی کرتے ہو، کیا تم کھیتی کرتے ہو یا درحقیقت کھیتی کرنے والے ہم ہیں۔ ہم چاہیں تو تیار کھیتی کو برباد کرکے رکھ دیں پھر تم ہکا بکا ہو کر رہ جاؤ۔ لا شک ان الایۃ تدل علی اباحۃ الزرع من جہۃ الامتنان بہ والحدیث یدل علی فضلہ بالقید الذی ذکرہ المصنف و قال ابن المنیر اشار البخاری الی اباحۃ الزرع و ان من نہی عنہ کما ورد عن عمر فمحلہ ما اذا شغل الحرث عن الحرب و نحوہ من الامور المطلوبۃ و علی ذلک یحمل حدیث ابی امامۃ المذکور فی الباب الذی بعدہ یعنی کوئی شک و شبہ نہیں کہ آیت قرآنی کھیتی کے مباح ہونے پر دلالت کر رہی ہے اس طور پر بھی کہ یہ خدا کا بڑا بھاری کرم ہے اور حدیث بھی اس کی فضیلت پر دال ہے۔ اس قید کے ساتھ جسے مصنف نے ذکر کیا ہے۔ ابن منیر کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کھیتی کے مباح ہونے پر اشارہ کیا ہے اور اس سے جو ممانعت وارد ہوئی ہے اس کا محل جب ہے کہ کھیتی مسلمان کو جہاد اور امور شرع سے غافل کردے۔ ابوامامہ کی حدیث جو بعد میں کھیتی کی مذمت میں آرہی ہے وہ بھی اس پر محمول ہے۔ مولانا وحید الز ماں رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت افراءیتم ما تحرثون سے یہ ثابت کیا کہ کھیتی کرنا مباح ہے۔ اورجس حدیث میں اس کی ممانعت وارد ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کھیتی میں ایسا مشغول ہونا منع ہے کہ آدمی جہاد سے باز رہے یا دین کے دوسرے کاموں سے۔ ( وحیدی )

2320.

حضرت انس  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب کوئی مسلمان شجرکاری یا کاشتکاری کرتا ہے، پھر اس میں سے کوئی پرندہ، انسان یا حیوان کھاتا ہے تو اسے صدقہ و خیرات کا ثواب ملتا ہے۔‘‘ اور مسلم (بن ابراہیم)نے کہا کہ ہم سے ابان نے بیان کیا، انھوں نے کہا: ہم سے قتادہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا: ہم سے حضرت انس  ؓ نے نبی ﷺ سے بیان فرمایا۔